کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 321
جمیع مراحل التعلیم۔ ۱۲۔ تلتزم الدولۃ بتعلیم المسلمین الأمور المجمع علیھا من الفرائض والسیرۃ النبویۃ وسیرۃ خلفاء الراشدین دراسۃ وافیۃ علی مدار سنوات التعلیم۔ ۱۳۔ تلتزم الدولۃ بتحفیظ ما تیسر من القرآن الکریم للمسلمین فی سنوات التعلیم حسب أنواع الدراسۃ کما تنشیٔ معاھد خاصۃ بالقرآن لتحفیظہ لمن عد الطلاب وتطبع المصحف الکریم وتیسرتداولہ۔ ۱۴۔ التبرج محظور والتعاون واجب وتصدر الدولۃ القوانین والقرارات لصیانۃ الشعور العام من الابتذال وفقاً لأحکام الشریعۃ الإسلامیۃ۔ ۱۵۔ اللغۃ العربیۃ الرسمیۃ والتاریخ الھجری واجب ذکرہ فی المکاتبات الرسمیۃ۔ ۱۶۔ الولایۃ العامۃ منوطۃ بمصلحۃ الرعیۃ وخاصۃ حمایۃ الدین والعقل والنفس والمال والعرض۔ ۱۷۔ لا یکفی أن تکون الغایات مشروعۃ بل یجب فی جمیع الحالات أن تکون الوسائل مطابقۃ لأحکام الشریعۃ الإسلامیۃ۔ ‘‘[1]
’’۱۰۔ طلب علم ایک دینی فریضہ ہے اور قانون کے موافق علم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ۱۱۔ تعلیم کے جمیع مراحل میں دینی تربیت بنیادی منہج ہے۔ ۱۲۔ مملکت اسلامیہ مسلمانوں کو فرائض‘ سیرت نبویہ اور سیرت خلفائے راشدین سے متعلقہ مجمع علیہ مسائل کی مناسب تعلیم کا التزام کرے گی جو مختلف تعلیمی درجات کی سطح کے مطابق ہو گا۔ ۱۳۔ مملکت مضامین کے اعتبار سے تعلیم کے مختلف درجات میں قرآن کریم میں سے جو بھی میسر ہو‘ اس کے حفظ کروانے کا التزام کرے گی۔ اسی طرح طلباء کے علاوہ افراد کے لیے بھی حفظ قرآن کے مخصوص اداروں کا قیام‘ مصحف شریف کی طباعت اور اس کی آسان فراہمی کو یقینی بنانا بھی مملکت کے فرائض میں شامل ہے۔ ۱۴۔ عورتوں کا بناؤ سنگھار کر کے گھر سے باہر نکلنا ممنوع ہے اور اس پر تعاون ایک شرعی ذمہ داری ہے۔ مملکت عمومی شعور کو لُچر پن سے محفوظ رکھنے کے لیے شرعی أحکام کے موافق قوانین اور قراردادیں پاس کرے گی۔ ۱۵۔ سرکاری خط و کتابت میں سرکاری زبان عربی اور ہجری تاریخ کا ذکر لازم ہو گا۔ ۱۶۔ ولایت عامہ اور خاص طور پر دین‘ عقل‘ نفس‘ مال اور عزت کی نگہداشت رعایا کی مصالح کے ساتھ معلق ہے۔ ۱۷۔ صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ مقاصد شرعی ہوں بلکہ جمیع حالات میں ان مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیے جانے والے وسائل کا بھی شرعی أحکام کے مطابق ہونا لازم و واجب ہے۔ ‘‘
تیسرا باب : اسلامی معیشت
اس باب میں کل ۱۰ دفعات کا بیان ہے۔ اسلامی معیشت کے ذیل میں درج ذیل رہنما أصول بیان کیے گئے ہیں :
’’۱۸۔ یقوم الاقتصاد علی مبادی الشریعۃ الإسلامیۃ بما یکفل الکرامۃ الإنسانیۃ والعدالۃ الاجتماعیۃ ویوجب السعی فی الحیاۃ بالفکر والعمل وتحمی الکسب الحلال۔ ۱۹۔ حریۃ التجارۃ والصناعۃ والزراعۃ مکفولۃ فی حدود الشریعۃ الإسلامیۃ۔ ۲۰۔ تضع الدولۃ خططاً للتنمیۃ الاقتصادیۃ وفقاً للشریعۃ الإسلامیۃ۔ ۲۱۔ تقاوم الدولۃ الاحتکار ولا تتدخل فی الأسعار إلا لضرورۃ۔ ۲۲۔ تشجع الدولۃ علی تعمیر الصحراء وتوسیع رقعۃ الأرض المنزرعۃ۔ ۲۳۔ لا یجوز التعامل بالربا أخذاً أو عطاء اً وأن یستمر أی تصرف معاملۃ ربویۃ۔ ۲۴۔ للدولۃ ملکیۃ ما فی باطن الأرض من المعادن والخامات وغیرھا من الثروات الطبیعیۃ۔ ۲۵۔ کل مال لا مالک لہ یکون ملکاً لبیت المال۔ وینظم القانون طریقۃ تملک الأفراد للمال۔ ۲۶۔ تصرف الدولۃ الزکاۃ التی یقدمھا إلیھا الأفراد فی مصارفھا الشرعیۃ۔ ۲۷۔ الوقف علی الخیرات جائز ویصدر قانون بتنظیمہ من جمیع النواحی۔ ‘‘[2]
[1] مصنفۃ النظم الإسلامیۃ الدستوریۃ:ص۶۸۷۔ ۶۸۸
[2] أیضاً: ص۶۸۹۔ ۶۹۱