کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 320
پہلا باب : أمت اسلامیہ
پہلا باب امت اسلامیہ کے بارے میں ہے۔ ا س باب میں چار آرٹیکل بیان کیے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں :
’’۱۔ المسلمون أمۃ واحدۃ۔ ۲۔ یجوز أن تتعدد الدول فی الأمۃ الإسلامیۃ وأن تتنوع أشکال الحکم فیھا۔ ۳۔ یجوز للدولۃ أن تتحد مع دولۃ إسلامیۃ أو أکثر فی الشکل الذی یتفق علیہ۔ ۴۔ یقوم الشعب بمراقبۃ الإمام وأعوانہ وسائر الحکام ومحاسبتھم وفق أحکام الشریعۃ الإسلامیۃ۔ ‘‘[1]
’’۱۔ مسلمان ایک امت ہیں۔ ۲۔ امت مسلمہ میں ایک سے زائد ممالک اور ان میں متنوع أشکال کی حکومتوں کا وجود جائز ہے۔ ۳۔ کسی بھی اسلامی مملکت کے لیے یہ جائز ہو گا کہ وہ ایک یا ایک سے زائد ریاستوں کے ساتھ کسی متفق علیہ صورت میں اتحاد قائم کرے۔ ۴۔ قوم ‘امام وقت ‘اس کے أعوان و انصار اور بقیہ تمام حکام کی نگرا ن ہو گی اور ان کا محاسبہ شرعی أحکام کے مطابق ہو گا۔ ‘‘
دوسرا باب : اسلامی معاشرے کی بنیادیں
دوسرا باب اسلامی معاشرے کی بنیادوں کے بارے میں ہے۔ اس باب میں ۱۳ آرٹیکل ہیں۔ پہلے پانچ آرٹیکل باہمی تعاون‘ أمر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ خاندان اور ریاست کی طرف سے بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی کے بارے میں ہیں۔ دستور میں ہے:
’’۵۔ التعاون والتکافل أساس المجتمع۔ ۶۔ الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر فرض ویأثم من یقصر فیہ مع القدرۃ علیہ۔ ۷۔ الأسرۃ أساس المجتمع‘ قوامھا الدین والأخلاق وتکفل الدولۃ دعم الأسرۃ وحمایۃ الأمویۃ ورعایۃ الطفولۃ وتھیئۃ الوسائل المحققۃ لذلک۔ ۸۔ حمایۃ الأسرۃ واجب الدولۃ بالتشجیع علی الزواج وتیسیر أسبابہ المادیۃ بالإسکان والمعونات الممکنۃ وتکریم الحیاۃ الزوجیۃ وتھیئۃ الوسائل لحسن تبعل المرأۃ لزوجھا وخدمۃ أولادھا واعتبار العنایۃ بالأسرۃ أول واجباتھا۔ ۹۔ العنایۃ بسلامۃ الأمۃ وصحۃ الأفراد واجب الدولۃ وعلیھا توفیر الخدمات الطبیۃ المجانیۃ للواطنین من وقائیۃ وعلاجیۃ۔ ‘‘[2]
’’۵۔ باہمی تعاون اور کفالت اسلامی معاشرے کی بنیاد ہے۔ ۶۔ أمر بالمعروف اور نہی عن المنکرفرض ہے اور جو اس پرقدرت کے باوجود اس میں کوتاہی کرتا ہے تو گناہ گار ہے۔ ۷۔ خاندان‘ معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ دین اور اخلاق حسنہ اس کا تنا ہیں۔ اسلامی مملکت خاندان کی تقویت‘ قوم کی حفاظت ‘ بچپن کی نگہداشت اور اس کے لیے مطلوبہ وسائل مہیاکرنے کی ذمہ دار ہو گی۔ ۸۔ خاندان کی نگہداشت‘ ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے اور ریاست شادی پر ابھارنے‘ اس کے مادی أسباب مثلاً رہائش‘ ممکنہ امداد کی فراہمی اور ازدواجی زندگی کو عزت بخشنے کے اقدمات کے ذریعے اس فریضے کو پور ا کر ے گی۔ ریاست اس لیے بھی وسائل مہیا کرے گی کہ ایک عورت کے لیے حق زوجیت کی ادائیگی‘ اپنی اولاد کی خدمت اور اپنے تمام فرائض میں خاندان کو ترجیح دینے میں آسانیاں پیدا ہوں۔ ۹۔ أمت کی سلامتی اور افراد کی صحت کی ذمہ داری اسلامی ریاست پر عائد ہوتی ہے لہذا مملکت اپنے شہریوں کو بیماریوں سے بچاؤ اور علاج کی مفت طبی سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہو گی۔ ‘‘
تعلیم‘ عورتوں کے دائرہ کار‘ زبان اور ولایت کے بارے میں بھی کئی ایک رہنما أصول وضع کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹرمصطفی کمال وصفی رحمہ اللہ ان کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’۱۰۔ طلب العلم فریضۃ والتعلیم واجب الدولۃ وافقاً للقانون۱۱۔ التربیۃ الدینیۃ منھج أساسی فی
[1] مصنفۃ النظم الإسلامیۃ الدستوریۃ:ص۶۸۳۔ ۶۸۴
[2] أیضاً:ص۶۸۵۔ ۶۸۷