کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 319
معزز اراکین کے ساتھ فقہ اسلامی اور آئینی قانون کے منتخب ماہرین اورکبار شخصیات کا اضافہ فرمایاتاکہ یہ پروگرام مکمل ہوسکے۔ ‘‘
اس مقصد کے لیے ۵جنوری ۱۹۷۷ء میں علماء کی جو کمیٹی تشکیل دی گئی اس کے اراکین درج ذیل علماء تھے۔
ڈاکٹر عبد الحلیم محمود صدر
ڈاکٹر الحسینی ہاشم رکن
استاذسید عبد العزیز ہندی رکن
شیخ حسنین محمد خلوف رکن
ڈاکٹر عبد الجلیل شلبی رکن
شیخ عبد الجلیل عیسی رکن
استاذ عبد الحلیم جندی رکن
استاذ عبد الفتاح نصار رکن
استاذ عبد المنعم عمارہ رکن
استاذ علی علی منصور رکن
ڈاکٹر محمد حسن فاید رکن
شیخ محمد خاطر محمد الشیخ رکن
أستاذ محمد عطیہ خمیس رکن
ڈاکٹر محمود شوکت عدوی رکن
استاذ مصطفی عفیفی رکن
استاذ ڈاکٹر مصطفی کمال وصفی رکن
استاذ حسن نور الدین رکن
استاذ یاقوت علی عشاوی رحمہم اللہ رکن[1]
دستور و آئین کے موضوعات و مشمولات
جامعہ أزہر‘ مجمع البحوث الإسلامیۃ اور عالم اسلام کے کئی ایک دوسرے علماء و فقہاء کی اجتماعی کاوشوں سے جو آئین و دستور مرتب کیا گیا‘ وہ ۹ ابواب پرمشتمل ہے۔ جس میں ۸ ابواب بنیادی حیثیت کے حامل ہیں جبکہ آخری باب میں کچھ متفرق باتوں کی وضاحت ہے۔ پہلا باب امت مسلمہ ‘ دوسرا اسلامی معاشرے کی بنیادوں ‘ تیسرااسلامی معیشت‘ چوتھا انفرادی حقوق و آزادی‘ پانچواں امامت‘ چھٹا عدلیہ ‘ ساتواں پارلیمنٹ اور آٹھواں حکومت کے بارے میں ہے۔ أبواب کے موضوعات سے محسوس ہوتا ہے کہ اس دستورمیں اسلامی ریاست کے جمیع پہلوؤں اورستونوں کے بارے میں رہنمائی موجود ہے۔ اس دستور کی بعض دفعات سے علمی اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ذیل میں ہم صرف اس دستور کے بیان پر اکتفا کریں گے۔ ڈاکٹر مصطفی کمال وصفی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’مصنفۃ النظم الإسلامیۃ الدستوریۃ‘کے آخر میں اس کی بعض دفعات پر کڑی تنقید کی ہے لیکن ہم یہاں اس تنقید کا کوئی تجزیہ پیش نہیں کریں گے کیونکہ اس طرح یہ فصل کافی طویل ہو جائے گی۔ ذیل میں ہم اس دستور کے ابواب کا آسان فہم اردو ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔
[1] مصنفۃ النظم الإسلامیۃ الدستوریۃ: ص۶۸۲