کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 318
فصل سوم
جامعہ أزہر کے علماء کا مجوزہ آئین برائے اسلامی ریاست
اسلامی ریاست ایک نظریاتی ریاست ہے لہذا اسلامی ریاست کا آئین ایک اسلامی آئین ہوناچاہیے جو قرآن سنت کے أصول و ضوابط کی روشنی میں مدون ہو۔ اس مقصد کے لیے علماء نے مختلف ادوار میں اجتماعی کوششوں سے کئی ایک آئین مرتب کیے۔ معروف مصری تحریک ’الاخوان المسلمون‘ سے علیحدہ ہونے والی تنظیم ’حزب التحریر‘سے متعلقہ اہل علم نے بھی اسلامی ریاست کے لیے ایک دستور مرتب کیا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے افغانستان میں قائم ہونے والی طالبان حکومت کی طرف سے اسلامی ریاست کا مرتب کردہ دستور دیکھنے کو ملا۔ راقم الحروف نے اس کا عربی سے اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔ اسی طرح کا ایک دستور جامعہ أزہر اور مجمع البحوث الإسلامیۃ‘ القاھرۃکے علماء نے بھی ۱۹۷۷ء مرتب کیا تھا۔ ہماری اس فصل کا موضوع اس اسلامی آئین و دستور کا تعارف ہے۔
دستور و آئین کی تیاری کا مقصد
مجمع البحوث الإسلامیۃ‘ القاھرۃکے علماء کی ایک کانفرنس میں اسلامی دستور و آئین کی تیاری کا درج ذیل مقصد بیان کیا گیا۔ ڈاکٹر مصطفی کمال وصفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’یوصی المؤتمر أن یقوم الأزھر ومجمع البحوث الإسلامیۃ بصفۃ خاصۃ بوضع دستور إسلامی لیکون تحت طلب أیۃ دولۃ ترید أن تأخذ الشریعۃ الإسلامیۃ منھاجاً لحیاتھا۔ ویؤخذ فی الاعتبار عند وضع ھذا الدستور أن یعتمد علی المبادی المتفق علیھا بین المذاھب الإسلامیۃ کلما أمکن ذلک۔ وتنفیذا لھذہ التوصیۃ قرر مجلس مجمع البحوث الإسلامیۃ بجلستہ المنعقدۃ فی ۱۱ من المحرم ۱۳۹۸ھ الموافق ۳۱ دیسمبر۱۹۷۷م إسناد وضع ھذا المشروع إلی لجنۃ الأبحاث الدستوریۃ الإسلامیۃ بالمجمع علی أن یدعی لھذا الاجتماع الشخصیات التی یمکن أن تسہم فی وضع ھذا المشروع۔ ‘‘[1]
’’کانفرنس اس بات کی وصیت کرتی ہے کہ جامعہ أزہر اور مجمع البحوث الإسلامیہ کے علماء ایک اسلامی دستوروضع کرنے کے لیے ایک خاص ترتیب سے کام کا آغاز کریں تا کہ کسی بھی اسلامی مملکت کے لیے اپنا منہج حیات‘ شریعت اسلامیہ کے مطابق کرنا آسان ہو جائے۔ اس دستور کو وضع کرنے کے دوران مذاہب اسلامیہ کے متفق علیہ مبادیات پر ممکن حد تک اعتماد کیا جائے گا۔ اس قرارداد کی تنفیذ کے لیے مجمع البحوث الإسلامیہ کی مجلس منعقدہ بتاریخ ۱۱ محرم ۱۳۹۸ھ یعنی ۳۱ دسمبر ۱۹۷۷ء میں مجمع نے یہ پروگرام اپنی اسلامی دستور کی ذیلی کمیٹی کے سپرد کر دیا تا کہ وہ ان معروف فقہاء کا تعین کر سکیں جو اس پروگرام میں حصہ ڈال سکیں۔ ‘‘
آئین کی تیاری میں شریک علماء
’’بناء علی ذلک قام فضیلۃ الإمام الأکبر الدکتور عبد الحلیم محمود شیخ الأزھر ورئیس المجمع بتکوین لجنۃ علیا ضمت بجانب السعادۃ أعضاء لجنۃ الأبحاث الدستوریۃ بالمجمع نخبۃ من کبار الشخصیات المشتغلین بالفقہ الإسلامی والقانون الدستوری لتتولی ھذہ المھمۃ۔ ‘‘[2]
’’اس بنیاد پر شیخ الأزہر اورصدر ِمجمع امام ڈاکٹر عبد الحلیم محمود رحمہ اللہ نے ایک اعلی علمی کمیٹی کی تشکیل کی خاطر مجمع کی دستوری تحقیقی کمیٹی کے
[1] مصنفۃ النظم الإسلامیۃ الدستوریۃ:ص۶۸۱
[2] أیضاً