کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 309
مجلہ کی قانونی حیثیت اگرچہ دیوانی مقدمات کے فیصلوں میں جج حضرات مجلہ سے رہنمائی حاصل کرتے تھے لیکن مجلہ کی حیثیت کسی لازمی قانون کی نہ تھی کہ جس کے خلاف فیصلہ کرنے کی اجازت نہ ہو۔ جج صاحبان بعض مقدمات میں مجلہ کے خلاف بھی فیصلہ جاری کر دیتے تھے۔ دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار لکھتے ہیں : ’’گو اس کے مختلف حصوں کی منظوری خط سلطانی کے ذریعے یکے بعد دیگرے حاصل کی گئی۔ ۔ ۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ مجلہ بھی تمام معاملات متعلقہ کے لیے واحد سند تھا۔ قاضیوں کو اس معاملہ میں پوری آزادی حاصل تھی کہ حنفی فقہ کی کتابوں کے مطالعے کے بعداپنے نتائج کا استنباط کریں اوریہ آزادی فی الحقیقت استعمال بھی کی جاتی رہی۔ ‘‘[1] مجلہ کا انگریزی اور اردو میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس کے کچھ حصوں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں بھی ہو اہے۔ مجلہ کے ثمرات و نتائج مجلہ کی تدوین سے سب سے بڑا فائدہ تو یہ حاصل ہوا کہ فقہ کی کتابوں میں منتشر و متفرق مسائل کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ جامع و مختصر انداز میں جدید أسلوب پر مدون کر دیا گیا ہے۔ لیکن جس مقصد کی خاطر مجلہ کی تدوین ہوئی تھی کہ اس کو سلطنت عثمانیہ کے قانون کا درجہ حاصل ہو‘ تو اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ اسی طرح ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مدنی قانون کے بعد قانون تجارت‘ قانون فوجداری اور عدالتوں کے أساسی قوانین کو اسلامی بنانے کی کوشش کی جاتی لیکن اس کی طرف بھی کوئی خاص پیش رفت نہ ہوئی بلکہ متبادل مغربی و غیر شرعی قوانین کی تنفیذ کی وجہ سے مجلہ کے ممکنہ فوائد و ثمرات کا اظہار بھی نہ ہو سکا۔ پروفیسر رفیع اللہ شہاب لکھتے ہیں : ’’مختصر یہ کہ حکومت عثمانیہ کی تمام قانونی کتابیں ‘ یورپی قوانین سے متاثر ہوئیں، چناچہ ان کا اکثر حصہ ترتیب‘ أبواب کے لحاظ سے بھی الفاظ و مفہوم کے اعتبار سے بھی‘ غیر ملکی قوانین سے ماخوذ تھا۔ حکومت عثمانیہ کویہ تبدیلی تجارتی ضروریات کے لیے اور معاشرے کے بدلتے ہوئے حالات کے تحت اختیار کرنی پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کی بعض قانونی کتابیں ‘ جہاں شریعت اسلامی کے مطابق ہیں ‘ وہاں بعض کی تفصیلات اسلامی قانون سے ٹکراتی ہیں۔ مثلاً قانون تعزیرات نے شریعت اسلامی کی بعض سزاؤں ‘ جیسے چور کا ہاتھ کاٹنا اور کوڑے لگانے کو ختم کر دیا۔ اسی طرح عدالت ہائے دیوانی کے قانون أساسی کی دفعہ ۱۱۲ کی رُو سے شریعت اسلامی کے سب سے سنگین گناہ اور جرم ربو یعنی سود کو جائز قرار دے دیا گیا۔ ‘‘[2] پروفیسر رفیع اللہ شہاب صاحب کا کہنا یہ بھی ہے کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل میں پھنس جانے کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ اس قانون کے فیوض و برکات سے محروم رہی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں : ’’مجلہ نے عدالتی نظام کے اس خلا کو پر کر دیا تھا۔ جو اس زمانے میں پیدا ہو گیا تھا‘کیونکہ اس کے ذریعے وہ مسائل شرعیہ‘ جو فقہ کی مختلف کتابوں میں منتشر تھے‘ یا ایک ہی مسئلہ کے متعلق متعدد أقوال و فتاوی پائے جاتے تھے‘ وہ سب واضح اور صریح أحکام کی صورت میں اس خوبی سے زمانے کے لحاظ سے یہ منضبط ہوگئے کہ عام قانون دان حضرات کو‘ ان کے سمجھنے اور پیش نظر معاملات میں ان سے استفادہ کرنے میں کوئی دشوارپیش نہ آتی تھی۔ یہ ایک نہایت ہی قابل قدر کوشش تھی‘ لیکن چونکہ عثمانی حکومت نے سود جیسی لعنت کو جو قرآنی تعلیمات کے مطابق اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی حیثیت رکھتی تھی‘ کو جائز قرار دے کر‘ سرمایہ داری نظام کو سرکاری طور پر اختیار کرلیا تھا۔ اس لیے زمانہ جدید میں اسلامی قانون کی تدوین نو کی اس کوشش سے وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے‘ جن کی اس سے توقع تھی۔ ‘‘[3]
[1] دائرۃ معارف إسلامیۃ : ۱۸؍ ۵۸۶ [2] أیضاً:ص۱۹۴۔ ۱۹۵ [3] أیضاً:ص۱۹۹