کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 307
۱۹۰۶ء میں قانون إجراء جاری ہوا۔ ان کے علاوہ دوسرے قوانین بھی وضع کیے گئے۔ جیسے یتیموں کے مال کی تنظیم‘ اور احکام صلح کا قانون اور شرعی عدالتوں کا قانون أساسی وغیرہ۔ ‘‘[1]
چاہیے تو یہ تھا کہ سلطنت زندگی کے ہر شعبے میں مسلمان علماء و فقہاء کے تعاون سے قرآن و سنت اور أئمہ سلف کی آراء کی روشنی میں اسلامی قانون سازی کی داغ بیل ڈالتی لیکن خلافت کا دعویدار ہونے کے باوجود سلطنت کو اس کی توفیق نصیب نہ ہوئی اور اس نے زمانے کے بدلتے حالات اور جدید تقاضوں کے نام پر مغرب کی نقالی شروع کر دی۔ زندگی کے ایک شعبے یعنی مدنی قانون کو فقہ حنفی کی روشنی میں مدون کیا گیا اور اس کو بھی عدالتی فیصلوں میں کبھی واحد سند کی حیثیت حاصل نہیں رہی۔
مجلہ کا أسلوب تدوین و تالیف
مجلہ کی تدوین کا کام علماء و ارباب حل و عقد کی ایک جماعت کے سپرد کیا گیاجو ابتداء اً سات افراد پر مشتمل تھی۔ ان میں سے ایک صاحب کو صدر مجلس منتخب کیا گیا۔ اس کمیٹی نے ایک سال میں مقدمہ اور باب اول مکمل کر کے شیخ الاسلام اور ارباب حل و عقد کو پیش کیا۔ جس میں ضروری ترمیمات کے ساتھ مجلہ کے بقیہ حصوں پر کام کی اجازت دے دی گئی۔ بقیہ حصوں پر کام کو کمیٹی ممبران کے مابین تقسیم کر لیا گیا اور صدر مجلس ہر حصے کے کام کی نگرانی کرتے تھے۔ پروفیسر رفیع اللہ شہاب لکھتے ہیں :
’’یہ قانونی مجلس ۱۳۸۵ھ بمطابق ۱۸۶۹ء میں سال بھر قانون سازی کے کام میں مصروف رہی‘ اس کے بعد مجلہ کا مقدمہ اور باب اول مرتب کر کے شیخ الاسلام اور حکومت کے ارباب حل و عقد کے سامنے پیش کیا۔ اس میں ضروری اصلاحات اور ترمیمات بھی کی گئیں۔ پھر مجلس کے اراکین نے آپس میں کام اس طرح تقسیم کر لیاکہ مجلہ کا الگ الگ حصہ ان کے سپر دہو گیا۔ مگر صدر مجلس تمام أبواب کی تدوین میں شریک رہا۔ مجلہ کی تالیف ۱۲۹۳ھ بمطابق ۱۸۷۶ء میں مکمل ہو گئی تھی۔ چناچہ اس طرح حکومت عثمانیہ کے قانون مدنی کی تدوین ہوئی جو سلطان ترکی کے ایک فرمان کے ذریعے مجلۃ الأحکام العدلیۃ کے نام سے شائع کیاگیا۔ ‘‘[2]
مجلہ کی تدوین میں صرف فقہ حنفی سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ایک دو مسائل میں فقہ شافعی سے بھی رائے لی گئی ہے۔ پروفیسر رفیع اللہ شہاب لکھتے ہیں :
’’اس مجلے میں صرف ایک دو مسائل میں حنفی فقہ کو ترک کر کے دوسرے فقہی مذاہب کے فتاوی اختیار کیے گئے تھے۔ جسے حنفی علماء نے ناپسند کیا۔ یہاں تک کہ اس کمیٹی میں ان کے نمائندے علامہ ابن ابن عابدین نے کمیٹی کی رکنیت سے استعفی دے دیا۔ ‘‘[3]
فقہ حنفی سے استفادہ میں بھی کتب أصول کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اگر کسی مسئلے میں امام صاحب اور صاحبین میں کچھ اختلاف مروی تھا تو جو قول زمانے کے تقاضوں اور مصلحت عامہ کے موافق تھا‘ اس کو اختیار کر لیا گیا۔ بعض مسائل میں مصلحت عامہ کے پیش نظر ظاہرالراویۃ کو چھوڑ کر متاخرین کے فتوی کو بھی ترجیح دی گئی ہے۔ پروفیسر رفیع اللہ شہاب لکھتے ہیں :
’’مجلہ کے اکثر أحکام و مسائل ‘ حنفی فقہ کی کتب ظاہر الروایۃ یعنی بنیادی کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ اور جس مسئلہ میں امام أعظم رحمہ اللہ اور صاحبین کا اختلاف ہے۔ وہاں مجلہ میں وہ مسلک اختیار کیا گیا‘ جو زمانے کے تقاضوں اور مصلحت عامہ کے لحاظ سے زیادہ منفعت بخش ہے۔ مثلاًبے وقوف کی بیع کے مسئلہ میں مجلہ نے امام اعظم رحمہ اللہ کی رائے ترک کرکے صاحبین یعنی امام صاحب رحمہ اللہ کے شاگردوں کا مسلک اختیار کیا ہے کہ وہ بیع نافذ نہ ہو گی۔ اسی طرح ان چیزوں کی بیع‘جن کے تیارکرنے کی فرمائش کارخانہ کودی جائے۔ ایسی بیع کو مجلہ میں صاحبین کے مسلک کے مطابع جائز قرار دیا گیا ہے۔ مجلہ میں صرف چند مسائل میں ظاہر الروایۃ کوچھوڑ کر دوسری روایتوں کو اختیار کیا گیا ہے۔ جیسے غصب کردہ چیز کے منافع کی ادائیگی کے واجب ہونے میں مجلہ میں حنفی فقہ کے بعد کے فقہاء کی رائے کو ترجیح دی گئی ہے‘ جو اتفاق
[1] اسلامی ریاست کا عدالتی نظام : ص۱۹۴
[2] أیضاً:ص۱۹۶۔ ۱۹۷
[3] أیضاً:ص۲۳۲۔ ۲۳۳