کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 306
فصل دوم مجلہ أحکام عدلیہ مجلۃ‘عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی رسالہ یا میگزین کے ہیں۔ اس کی جمع عموماً’مجلات‘ آتی ہے۔ أحکام‘ حکم کی جمع ہے جبکہ عدلیہ سے مراد عدالت سے متعلقہ أحکام یعنی آرڈرز ہیں۔ پس’ مجلۃ الأحکام العدلیۃ‘سے مراد ایسا رسالہ ہے کہ جس میں عدالتی أحکام کو بیان کیا گیا ہو۔ مجلہ در أصل سلطنت عثمانیہ کا دیوانی قانون تھا‘ جس میں مختلف ابواب کے تحت فقہ حنفی کے ہزاروں فتاوی جات کو قانونی شکل دی گئی ہے۔ یہ مجلہ ایک مقدمہ ‘ ۱۶ ابواب اور ۱۸۵۱ دفعات پر مشتمل ہے۔ مجلہ کی تدوین کی ضرورت و اہمیت مجلہ کی تدوین و تنفیذ کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ سلطنت عثمانیہ کے عدالتی نظام میں جج حضرات اگرچہ جدید و مغربی قانون کے تو ماہر ہوتے تھے لیکن عموماً علم فقہ سے ناواقف ہوتے تھے جیسا کہ ہم آج کل پاکستان میں بھی یہی صورت حال دیکھتے ہیں۔ جدید مغربی قانون کے تحت کام کرنے والی عدالتوں کو اکثر اوقات دیوانی مقدمات کا فیصلہ بھی کرنا پڑتا تھا لیکن جج حضرات علم فقہ سے ناواقفیت کی وجہ سے شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلہ کرنے سے معذور تھے۔ ان حالات میں ایک ایسا ضابطہ مدون کرنے کی ضرورت کا احساس بیدار ہوا جس میں جدید أسلوب میں ‘ مختصر اور حکمیہ انداز میں فقہی عبارات کو ڈھال دیا جائے تاکہ جج صاحبان بوقت ضرورت دیوانی معاملات میں اس سے شرعی رہنمائی حاصل کر سکیں۔ دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار مجلہ کی تدوین کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’اس ضابطہ کو سات آدمیوں پر مشتمل ایک مقرر شدہ مجلس نے وضع کیاجس کا صدر أحمد جودت پاشا تھا۔ ایک ابتدائی رپورٹ مؤرخہ ۱۸ ذوالحجہ ۱۲۵۸ھ(یکم اپریل ۱۸۶۹ء)میں یہ مجلس ہمیں بتاتی ہے کہ اس ضابطہ کے مرتب کرنے کی ضرورت کیوں لاحق ہوئی۔ جدید قائم کردہ دنیاوی عدالتوں (نظامیہ)کو اکثر اوقات عام دیوانی قانون کے معاملات کا فیصلہ کرنا پڑتاہے‘ لیکن ججوں کو عام طور پر علم فقہ سے پوری واقفیت نہیں ہوتی‘ اس لیے یہ یہ قرین مصلحت سمجھا گیاکہ مذہبی عدالتوں کے صدر ہی کو بیک وقت ان دنیاوی عدالتوں کا صدر بھی مقرر کیا جائے۔ یہ انتظام تسلی بخش ثابت نہ ہوا‘ اس لیے اس امر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ قانونی معاملات کے متعلق ضروری أمور کو ایک ضابطہ کی صورت میں تشکیل دے دیا جائے جس کا آسانی کے ساتھ مطالعہ کیا جا سکے اور اس کے مقابلے میں فقہ کی ضخیم کتابوں کے دیکھنے کی ضرورت نہ رہے۔ ‘‘[1] سلطنت عثمانیہ میں یورپین عدالتی نظا م کے زیر اثر مجلہ کی تدوین سے پہلے ہی کئی ایک مغربی و یورپی قوانین کا نفاذ ہوچکا تھا۔ یہ تمام قوانین ایسے تھے جو مغربی ممالک سے جوں کے توں لے لیے گئے تھے اور سلطنت نے اپنے تئیں علماء و فقہاء کی کسی جماعت سے ان مسائل کے بارے میں کسی شرعی قانون سازی کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ پروفیسر رفیع اللہ شہاب لکھتے ہیں : ’’ٹھیک اسی وقت میں عثمانی حکومت کے بالکل پڑوس میں یورپ کے قوانین کی جدید طریقے سے تدوین ہو رہی تھی‘ جس کا اثرپڑوسی ملک پر پڑنا ایک قدرتی أمر تھا۔ چناچہ زمانے کے تقاضوں سے مجبور ہو کر حکومت عثمانیہ نے بھی ایسے قوانین کا نفاذ ضروری سمجھا‘ جو زمانہ جدید کے تقاضوں کو پورا کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے مختلف یورپی ممالک کے قوانین کا مطالعہ کیا گیا۔ سب سے پہلے ۱۸۵۰ء میں فرانسیسی قانون کے مطابق قانون تجارت کیا گیااور ۱۸۵۷ء میں قانون اراضی نافذ ہوا۔ اس کے بعد فرانسیسی قانون کے نمونے پر قانون فوجدای وضع کیا گیا۔ لیکن بعد میں اطالوی قانون زیادہ مفید نظر آیا‘ تو اس کے مطابق ترمیمیں کر لی گئیں۔ ۱۸۶۱ء میں تجاری عدالتوں کا قانون أساسی نافذ ہوا۔ ۱۸۶۸ء میں بحری تجارت کا قانون ۱۸۸۰ء میں عدالت ہائے دیوانی کا قانون أساسی بنایا گیا‘ اور ۱۹۱۱ء میں اس کا تکملہ وضع ہوا‘ اور
[1] دائرۃ معارف إسلامیۃ : ۱۸؍ ۵۸۵