کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 303
تو نوادر میں سے درج کر دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ تصریح بھی کر دی گئی ہے کہ جس کتاب سے یہ فتوی نقل کیا جارہا ہے اس میں یہ درج ہے کہ فقہ حنفی میں مفتی بہ قول یہی ہے۔ فتاوی کے مقدمہ میں ہے:
’’واقتصروا فی الأکثر علی ظاھر الروایات ولم یلتفتوا إلا نادرا إلی النوادر والدرایات وذلک فیما لم یجدوا جواب المسئلۃ فی ظاھر الروایات أو وجدوا جواب النوادر موسوماً بعلامۃ الفتوی۔ ‘‘[1]
’’اکثر طور پر ’کتب ظاہر الروایہ‘ پر ہی اکتفاء کیا گیا ہے اور ’کتب نوادار و درایات‘کی طرف التفات بہت ہی کم ہے۔ اور ان کتب کی طرف التفات بھی اس وقت کیا گیا جبکہ ظاہر الروایہ میں مسئلے کا جواب موجود نہ ہو یا انہوں نے نوادر کے جواب کو فتوی کی علامت کے ساتھ موسوم پایا۔ ‘‘
4۔ ہر مسئلہ کو بیان کرتے وقت ساتھ ہی اس کے مأخذ کوبھی بیان کر دیا گیا ہے۔ اگر تو کوئی مسئلہ بیان کرتے وقت کسی ایسی کتاب کا حوالہ دیا گیاہے کہ جس نے خود کسی دوسری کتاب سے نقل کیا ہے تو ’ناقلا عن فلان‘کر کے اصل ماخذ کی طرف اشارہ بھی موجود ہے۔ فتاوی کے مقدمہ میں ہے:
’’ونقلوا کل روایۃ من المعتبرات بعبارتھا مع انتماء الحوالۃ إلیھا۔ ‘‘[2]
’’فتاوی کے مؤلفین نے جمیع روایات کو ان کے معتبر مأخذات سے نقل کیا ہے اور ساتھ ہی اس ماخذ کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ ‘‘
5۔ اگر کسی مسئلہ کے بارے میں دو اقوال موجود ہیں اور دونوں میں کوئی بھی قابل ترجیح نہیں ہے تو دونوں کو مع حوالہ نقل کر دیا گیا ہے۔ فتاوی کے مقدمہ میں ہے:
’’وإذا وجدوا فی المسئلۃ جوابین مختلفین کل منھما موسوماً بعلامۃ الفتوی وسمۃ الرجحان أولم یکن واحد منھما معلما بما یعلم بہ قوۃ الدلیل والبرھان أثنتوھما فی ھذا الکتاب۔ ‘‘[3]
’’اور جب انہوں نے کسی مسئلہ میں دو مختلف جواب پائے اور دونوں ہی فتوی کی علامت اور رجحان کی نشانی سے موسوم پائے گئے یا ان دونوں اقوال میں سے کسی ایک کے لیے کوئی ایسی نشانی نہیں تھی کہ اس کے لیے دلیل و برہان کی قوت واضح ہو تو ان دونوں اقوال کو اس کتاب میں درج کر دیا گیا ہے۔ ‘‘
6۔ اگر کسی کتاب کا لفظ بلفظ حوالہ نقل کیا گیا ہے تو ’کذا‘لکھ دیا ہے اور اگر کسی کتاب کے الفاظ کا مفہوم یا عبارت کاخلاصہ نقل کیا ہے تو ’ھکذا‘کے الفاظ کے ساتھ اشارہ کر دیا ہے۔ فتاوی کے مقدمہ میں ہے:
’’ولم یغیروا العبارۃ إلا لداعی ضرورۃ عن وجھھا ولإشعار الفرق بینھما أشاروا إلی الأول بکذا وإلی الثانی بہکذا۔ ‘‘[4]
فتاوی کے مؤلفین نے متعلقہ کتاب کی عبار ت کو تبدیل نہیں کیا لیکن ضرورت کے تحت‘ اوردونوں أسالیب نقل میں فرق واضح کرنے کے لیے انہوں نے پہلے اسلوب کو’کذا‘ اور دوسرے کو ’ھکذا‘ کا نام دیا ہے۔ ‘‘
7۔ فتاوی کی تدوین میں جملہ مسائل ہدایہ کی طرز پر جمع کیے گئے ہیں۔ مسائل کی تکرار اور متن میں حشو و زوائد سے پرہیز کیا گیا ہے۔ اس کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے حوالے مستند کتابوں کی أصل عبارتوں پر مشتمل ہیں۔ [5]
فتاوی کے مشمولات و موضوعات
فتاوی کوکئی ایک کتب میں تقسیم کیاگیا ہے۔ ہر کتاب کئی ایک ابواب پر مشتمل ہے جبکہ ہر باب میں پھر کئی ایک فصول ہیں۔ ذیل میں ہم
[1] الفتاوی العالمکیریۃ:۱؍ ۳
[2] أیضاً
[3] أیضاً
[4] أیضاً
[5] دائرۃ معارف إسلامیۃ : ۱۵؍ ۱۴۷