کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 302
فتاوی عالمگیری کی تالیف کا طریقہ کار فتاوی کی تالیف میں درج ذیل أمور کو پیش نظر رکھا گیا ہے: 1۔ فتاوی عالمگیری کی جمع و تدوین کے لیے اس کو مختلف فقہی ابواب میں تقسیم کیا گیا اور پھر اس کے مختلف حصے بنا کر علماء میں تقسیم کر دیے جاتے تھے۔ علاوہ ازیں ہر متعین حصے کی تکمیل کے لیے علماء کی ایک جماعت ہوتی تھی جس کاصدر انہی میں سے ایک عالم دین ہوتا تھاجیسا کہ حصہ اول کی تدوین کا کام شیخ جلال الدین جونپوری رحمہ اللہ کے ذمہ سپرد تھا۔ [1] اسی طرح شیخ وجیہ الدین گوپاموی رحمہ اللہ کے بارے میں بھی منقول ہے کہ فتاوی کی تالیف کا ایک حصہ ان کے سپر د تھااور علماء کی ایک جماعت اس کام میں ان کے معاون تھی۔ مولانا مجیب اللہ ندوی رحمہ اللہ ’مرآۃ العالم‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ’’(شیخ وجیہ الدین)در ترتیب و تالیف ربعے فتاوی عالمگیری شاہی مامور شدہ‘ دہ کس دیگر أز فضلاء بمدد و اعانت أو مامور شدند‘‘۔ [2] ’’ فتاوی عالمگیری کے ایک چوتھائی حصے کی ترتیب و تالیف پر شیخ وجیہ الدین رحمہ اللہ کو شاہی فرمان سے مامور کیا گیا اور ان کی معاونت کے لیے دس دیگرعلماء کو بھی مامور کیا گیا۔ ‘‘ اس عبارت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فتاوی کی جمع و تالیف کے لیے اس کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور ہر ایک حصے کا ایک صدر تھا اور اس کے معاون کے طور پر دس علماء اس کی تدوین میں اس کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ اس طرح تقریباً چالیس کے قریب علماء نے اس فتاوی کی جمع و تالیف میں حصہ لیا ہے لیکن یہ عدد یقینی نہیں ہے اس میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ ایک اور حصے کی تالیف کا کام شیخ محمد حسین جونپوری رحمہ اللہ کے سپرد تھا۔ [3] فتاوی کے ایک اور حصے کی تکمیل کا کام ملا حامد جونپوری رحمہ اللہ کے سپردتھا۔ انہوں نے شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے والد شاہ عبد الرحیم رحمہ اللہ کو اپنے معاون کے طور پر رکھاتھا لیکن بعد میں شاہ صاحب رحمہ اللہ نے ان کی معاونت سے انکار کر دیا۔ [4] 2۔ ہر صدر اپنے حصے کی تکمیل کا ذمہ دار تھا۔ اگر کسی جماعت سے اس کے کام میں کوئی غلطی رہ جاتی تھی تو ملا نظام جو علماء کی اس مجلس کے صدر اعلی تھے‘اس کی باز پرس اس جماعت کے صدر سے کرتے تھے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ اپنے والد صاحب کا ایک واقعہ نقل کرتے ہوئیفرماتے ہیں : ’’والد صاحب نے ایک روز فرمایا کہ میں فتاوی عالمگیری پر نظر ثانی کر رہا تھاکہ ایک جگہ عبارت پیچیدہ تھی‘ سمجھ میں نہیں آئی‘ میں نے أصل ماخذ کی طرف رجوع کیا‘ تو معلوم ہوا کہ اس باب کے جامع نے دو عبارتوں کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے‘ جس کی وجہ سے مسئلہ پیچیدہ ہو گیا ہے‘ میں نے اس کے حاشیہ پر لکھ دیا کہ: من لم یتفقہ فی الدین قد حنف فیہ ھذا غلط و صوابہ کذا یعنی جس نے دین میں تفقہ حاصل نہیں کیا اس نے دین میں کج روی کی‘ یہ غلط ہے اور صحیح یوں ہے۔ خود ملا نظام دو چار صفحات روزانہ بادشاہ کو لے جا کر سناتے تھے۔ ایک دن جب حسب معمول انہوں نے ان صفحات کو عالمگیر کے سامنے پڑھا‘ تو جلدی میں اس حاشیہ کی عبارت کو متن سے ملا دیا‘ جس سے مطلب خبط ہو گیا۔ بادشاہ نے ٹوکا اور پوچھا کہ یہ عبارت کیسی ہے‘ ملا نظام اس وقت کوئی جواب نہ دے سکے‘ اور یہ کہہ کر ٹال دیا کہ میں نے اس عبارت کا مطالعہ نہیں کیا تھا‘ جواب کل دوں گا۔ ‘‘[5] 3۔ دوران جمع و تالیف اس کتاب میں انہی مسائل کو بیان کیا گیا ہے کہ جو ظاہر الروایہ ‘ مفتی بہ اور راجح ہیں۔ اگر کوئی مسئلہ ظاہر الروایہ میں نہ تھا
[1] فتاوی عالمگیری کے مؤلفین : ص۲۱ [2] أیضاً [3] أیضاً [4] فقہائے ہند : ۵(۱)؍۲۲۶۔ ۲۲۹ [5] أیضاً:ص۲۲۷۔ ۲۲۸