کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 298
السیر الکبیر یہ ایک ضخیم کتاب ہے اور تقریباً ۱۶۰اجزاء پر مشتمل ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ کے بقول یہ امام محمد رحمہ اللہ کی سب سے آخری کتاب ہے۔ [1] یہ چھ کتابیں حنفی مذہب کی اصل ہیں۔ چوتھی صدی ہجری میں أبوالفضل محمد بن أحمد مروزی المعروف بحاکم الشہید رحمہ اللہ نے ان چھ کتابوں کو جمع کر کے ایک کتاب بنا دی اور اس کانام ’کافی‘ رکھا۔ امام سرخسی رحمہ اللہ نے اس کتاب یعنی ’کافی‘کی ’مبسوط‘ کے نام سے تیس جلدوں میں ایک مفصل شرح بھی لکھی ہے۔ یہ کتاب امام سرخسی رحمہ اللہ کی شرح کے ساتھ’ دار الکتب العلمیہ‘ بیروت سے شائع ہو چکی ہے۔ کتب نوادر کتب ’ظاہر الروایہ‘ کے علاوہ امام محمد رحمہ اللہ یاامام أبویوسف رحمہ اللہ کی دیگر کتب فقہ کتب نوادر کہلاتی ہیں۔ اس طبقے میں رقیات‘ کیسانیات‘ جرجانیات‘ ہارونیات‘ امالی امام محمد‘ نوادر ابن رستم‘ نوادر ابن سماعہ‘ نوادر ہشام‘ نوادربشر عن أبی یوسف وغیرہ شامل ہیں۔ [2]ان کے علاوہ حدیث و فقہ میں حضرات صاحبین کی متعدد کتب مثلا کتاب الحج‘ کتاب الآثار‘ مؤطاامام محمد‘ اختلاف أبی حنیفہ و ابن أبی لیلی اور الرد علی السیر وغیرہ بھی اس اس طبقے میں شامل کی جاتی ہیں۔ کتب فتاوی ان سے مراد وہ کتب ہیں جو ان مسائل و فتاوی پر مشتمل ہیں ‘جنہیں متأخرین نے اپنی قوت اجتہاد سے مستنبط کیا ہے کیونکہ ان مسائل کے بارے میں أصحاب مذہب سے کوئی روایت منقول نہ تھی۔ ان متأخرین سے مراد امام محمد رحمہ اللہ اور امام أبویوسف رحمہ اللہ کے شاگرد یا پھر ان کے شاگردوں کے شاگرد وغیرہ ہیں۔ مثلاًعصام بن یوسف‘ ابن رستم‘ ابن سماعہ‘ أبوسلیمان جوزجانی‘ أبوحفص بخاری‘ محمد بن سلمہ‘ محمد بن مقاتل‘ نصیر بن یحی اور قاسم بن سلام رحمہم اللہ وغیرہ۔ جس شخص نے سب سے پہلے اس قسم کے فتاوی کو مرتب کیا ہے اس کا نام أبو لیث سمرقندی رحمہ اللہ ہے۔ انہوں نے اپنی اس کتاب کا نام’کتاب النوازل‘ رکھا۔ ان کے بعد ناطقی رحمہ اللہ نے ’مجموع النوازل و الواقعات‘اور حسام الدین صدر الشہید رحمہ اللہ نے بھی ’الواقعات‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ کتب جمع و تالیف ان کتب سے مراد متأخرین کی وہ کتابیں ہیں کہ جن میں مذکورہ بالا تین طبقات کی کتابوں کے مسائل کو جمع کر دیا گیا ہے۔ بعض علماء نے ان مسائل کو مخلوط شکل میں بیان کر دیا ہے اور الگ الگ بیان نہیں کیا جیساکہ ’فتاوی قاضی خان‘ ہے۔ جبکہ بعض علماء نے ان طبقات کی کتابوں کے مسائل کو الگ الگ بیان کیا ہے جیسا کہ شمس الأئمہ سرخسیؒ کی ’المحیط‘ میں ہے یعنی پہلے مسائل اصول کا ذکر ہے اور پھر کتب نوارد کے مسائل کا تذکرہ ہے اور پھر فتاوی کو بیان کیا ہے۔ فتاوی عالمگیری بھی اسی قسم کی ایک کتاب ہے کہ جس میں اصول ‘ کافی‘ منتقی‘ امالی‘ نوادر اور فتاوی کی روایات جمع کر دی گئی ہیں۔ فتاوی عالمگیری کے نام سے یہ وہم نہ ہوناچاہیے کہ یہ تیسرے طبقے کی کتاب ہے او راس میں صرف جدید مسائل و واقعات کا حل پیش کیا گیا ہے‘ کیونکہ متأخرین حنفیہ میں فتاوی کا لفظ عموماًمذکورہ بالا چوتھے طبقے کی کتب وغیرہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ فتاوی عالمگیری کے مآخذو مصادر فتاوی عالمگیری کی تالیف میں اکثرو بیشتر جن فقہائے احناف کی آراء یا کتب سے استفادہ کیا گیا ہے ان کا نام صراحتا ًساتھ ہی درج کر دیا گیا ہے۔ جن أئمہ کی کتب سے مسائل کی تخریج کی گئی ہے ان میں سے بعض تو مجتہد فی المذہب یا مجتہد فی المسئلہ ہیں اور بعض أصحاب ترجیح
[1] سیرت امام أعظم أبوحنیفہ رحمہ اللہ : ص۱۵۲۔ ۱۵۴ [2] مترجم فتاوی عالمگیری: ص۸۹