کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 297
۴۱۳۔ شیخ زین العابدین بن ابراہیم مصری المعروف بابن نجیم ۴۱۴۔ خیر الدین بن أحمدرملی فاروقی
۴۱۵۔ محمدبن علی بن محمد حصکفی(متوفی ۱۰۸۸ھ) ۴۱۶۔ ابراہیم بن حسین المعروف ببیری زادہ
۴۱۷۔ أبو المعارف عنایت اللہ محمد لاہوری ۴۱۸۔ رئیس علماء شیخ نظام الدین رحمہم اللہ
طبقات کتب ِ مسائل
وہ کتابیں جو فقہ حنفی کو روایت کرتی ہیں ‘ اپنی قوت کے اعتبار سے یکساں نہیں ہیں۔ عام طور پر فقہ حنفی کی کتب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو درج ذیل ہیں :
کتب اُصول
یہ مذہب کی بنیاد ہیں۔ کتب أصول کے بارے میں عمومی قول یہی ہے کہ ان کے مؤلف امام محمد رحمہ اللہ ہیں اور یہ کل چھ کتابیں ہیں : جامع صغیر‘ جامع کبیر‘ مبسوط‘ زیادات‘ السیر الصغیر اور السیر الکبیر۔ انہیں کتب ’ظاہر الروایہ‘ بھی کہتے ہیں۔ ذیل میں ہم ان کتابوں کا اجمالی تعارف نقل کر رہے ہیں :
جامع صغیر
اس کتاب میں امام محمد رحمہ اللہ نے امام أبویوسف رحمہ اللہ کی روایت سے امام أبوحنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال نقل کیے ہیں۔ اس کتاب کے مسائل کی کل تعداد۵۳۳ہے جبکہ ۱۷۰ مسائل میں امام محمد رحمہ اللہ نے امام صاحب سے اختلاف کیا ہے۔ اس کتاب کی تقریباً چالیس کے قریب شروحات لکھی گئی ہیں۔ اپنی شرح ’النافع الکبیر‘ کے ساتھ’دار عالم الکتب‘ بیروت سے شائع ہو چکی ہے۔
جامع کبیر
یہ کتاب بھی جامع صغیر کی طرح ہے مگر اس میں مسائل کی تعدادنسبتاً زیادہ ہے۔ اس کتاب میں امام أبوحنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال کے علاوہ امام أبو یوسف رحمہ اللہ اور امام زفر رحمہ اللہ کے اقوال بھی شامل ہیں۔ ہر مسئلہ کی دلیل بھی ساتھ ہی مذکور ہے۔ مابعد زمانے کے حنفی فقہاء نے حنفی اصول فقہ‘ اس کتاب کی فروعات کو سامنے رکھتے ہوئے مرتب کیے ہیں۔
مبسوط
یہ امام محمد رحمہ اللہ کی پہلی کتاب ہے اور ’أصل‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس کتاب میں امام أبوحنیفہ رحمہ اللہ سے پوچھے گئے فتاوی کے جوابات کو جمع کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں وہ مسائل بھی درج ہیں جن میں امام محمد رحمہ اللہ اور امام أبو یوسف رحمہ اللہ نے امام أبوحنیفہ رحمہ اللہ سے اختلاف کیا ہے۔ علاوہ ازیں اس کتاب میں امام أبوحنیفہ رحمہ اللہ اور ابن أبی لیلی رحمہ اللہ کے اختلافات بھی مذکور ہیں۔ أبو الوفاء أفغانی کی تحقیق ساتھ’إدارۃ القرآن والعلوم الإسلامیۃ‘ کراچی سے شائع ہو چکی ہے۔
زیادات
اس کتاب میں وہ مسائل ہیں جو ’جامع صغیر ‘اور ’جامع کبیر‘ میں درج ہونے سے رہ گئے ہیں۔
السیر الصغیر
اس کتاب میں حکومت و سیاست اور جہادکے مسائل ہیں۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے جب اس کتاب کو دیکھا تو طنز کیا کہ اہل عراق کو سِیَرسے کیا واسطہ‘ امام محمد رحمہ اللہ نے جب یہ جملہ سنا تو ’السیر الکبیر‘لکھی۔