کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 289
ہے۔ شیخ أبو زہرہ رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ یہ حضرات امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد نہ تھے اگرچہ آپ کے اصول استنباط سے بڑی حد تک متفق تھے۔ لیکن ان کے اصول یکساں ہر گز نہیں ہیں۔ [1] مجتہد مستقل منتسب اس سے مراد وہ مجتہد ہیں جو کسی خاص مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں۔ اپنے أئمہ کے براہ راست شاگرد ہوتے ہیں اور اکثر و بیشتر انہی کے قول پر فتوی دیتے ہیں لیکن بعض اوقات اختلاف بھی کرتے ہیں۔ فقہ حنفی میں امام ابو یوسف‘ امام محمد اور امام زفر رحمہم اللہ کو یہ مقام حاصل ہے۔ فقہ شافعی میں امام مزنی اور فقہ مالکی میں ابن قاسم‘ ابن وہب اور ابن عبد الحکم رحمہم اللہ کا شمار اسی طبقے میں ہوتا ہے۔ [2] فقہ حنبلی میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن قیم رحمہ اللہ کا شمار اس قسم میں ہوتا ہے۔ أکابر متأخرین یہ وہ فقہاء ہیں جو اصول و فروع دونوں میں تو اپنے امام کے متبع ہوتے ہیں لیکن جو مسائل امام سے منقول نہ ہوں ‘ ان میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ امام خصاف‘ امام طحاوی‘ امام کرخی‘ امام سرخسی‘ امام حلوائی اور امام جصاص رحمہم اللہ کو اس طبقے میں شمار کیا گیا ہے۔ بعض علماء نے بزدوی ‘ قدوری‘ قاضی خان‘ صاحب ہدایہ‘ صاحب ذخیرہ و محیط اور صاحب نصاب و خلاصہ کو بھی اس طبقے میں شمار کیا ہے۔ [3] أصحاب تخریج ان سے مراد وہ فقہاء ہیں جنہیں من جملہ اجتہاد کی صلاحیت و قدرت حاصل ہے۔ یہ فقہاء اصول و فروع میں موجود مبہم و مجمل اقوال کی تشریح و وضاحت کر سکتے ہیں۔ بعض علماء نے امام جصاص رحمہ اللہ کو اس طبقے میں شامل کیا ہے۔ [4] أصحاب ترجیح اس سے مراد وہ فقہاء ہیں جو مختلف اقوال و روایات کے بارے میں یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان میں کون سی زیادہ صحیح ہے یا قیاس کے نسبتاً قریب ہے یا دلیل کے اعتبار سے قوی ہے۔ بعض علماء نے امام قدوری‘ صاحب ہدایہ‘ ابن الہمام‘ ابن کمال پاشا اور أبو سعود رحمہم اللہ کو اس طبقے میں شمار کیا ہے[5] أصحاب تمیز ان سے مراد وہ فقہاء ہیں جو پہلوں سے منقول اقوال میں یہ فرق کر سکیں کہ ان میں سے قوی تر‘ قوی‘ ضعیف‘ ظاہر المذہب یا نادر الراویہ کون سا قول ہے۔ حنفیہ کے ہاں کنز الدقائق‘ درمختار‘ وقایہ‘ مجمع وغیرہ جیسے معتبر متون کے مؤلفین اس طبقے میں شامل ہیں۔ ان علماء کی شان یہ ہے کہ اپنی کتب میں ضعیف و مردود اقوال کو نقل نہیں کرتے۔ یہ فقہاء مختلف اقوال میں ترجیح نہیں دیتے بلکہ صرف اتنا بتلاتے ہیں کہ راجح قول کون سا ہے۔ [6]
[1] حضرت امام أبوحنیفہ رحمہ اللہ : ص۶۶۸۔ ۶۶۹ [2] أصول فقہ پر ایک نظر : ص۱۷۰ [3] مقدمہ مترجم فتاوی عالمگیری : ۱؍۸۷ [4] أیضاً: ص۸۸ [5] أیضاً [6] حیات حضرت امام أبوحنیفہ رحمہ اللہ: ص۶۷۲