کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 287
ملا حامد جونپوری رحمہ اللہ یہ بھی ’ جونپور‘ کے رہنے والے تھے۔ اورنگزیب عالمگیر نے ان کو اپنے بیٹے محمد اکبر کا اتالیق بھی مقرر کیا تھا۔ شیخ رضی الدین رحمہ اللہ مولانا ’بہار‘ کے علاقے کے رہنے والے تھے۔ دربار شاہی میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ مولانا محمد شفیع رحمہ اللہ یہ بھی صوبہ ’بہار‘ کے رہائشی تھے۔ عالمگیر نے ان کو فتاوی عالمگیری کی تالیف کے لیے ایک روپیہ بارہ آنہ یومیہ وظیفے پر رکھا تھا۔ بعد میں یومیہ وظیفہ کی بجائے ایک سوتیس بگھہ اراضی پر گنہ ادکردی میں دے دی‘ جس کی شاہی سند ان کے خاندان میں اب تک محفوظ ہے۔ ملا وجیہ الرب رحمہ اللہ ان کے بارے میں بھی بعض تاریخی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی فتاوی کی تالیف میں شریک تھے۔ مولانا محمد فائق رحمہ اللہ مولانا محمد شفیع رحمہ اللہ کے صاحبزادے کے خسر تھے۔ یہ بھی فتاوی کی ترتیب و تالیف میں شریک رہے۔ ان کو دربار سے اس کے عوض یومیہ وظیفہ بھی ملتا تھا اور بعد میں ایک جاگیر بھی عطا کی گئی‘ جس کی شاہی سند ان کے خاندان میں اب تک محفوظ ہے۔ ملا محمد اکرم رحمہ اللہ یہ دارالحکومت کے موروثی مفتی تھے۔ بعد ازاں عہدہ قضاء بھی ان کے سپر دہوا۔ یہ بھی مولانا محمد فائق رحمہ اللہ کے ساتھ فتاوی کی ترتیب و تدوین میں شریک رہے۔ ملا فصیح الدین پھلواری رحمہ اللہ یہ ’بہار‘ کے علاقے ’پھلوار‘ کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے اپنے استاد ملا عوض وجیہ سمرقندی رحمہ اللہ کے ذریعے عالمگیر کے دربار تک رسائی حاصل کی اور اپنے تبحر علمی کی بنیاد پر فتاوی کی تدوین میں شریک رہے۔ شاہ عبد الرحیم دہلوی رحمہ اللہ فتاوی عالمگیری کی تالیف میں شاہ صاحب ‘ اپنے ایک ہم جماعت ملا حامد جونپوری کے معاون کی حیثیت سے نظر ثانی کے لیے شامل رہے تھے کیونکہ فتاوی کی تدوین کا کچھ حصہ ملا حامد جونپوری رحمہ اللہ کے سپرد تھا۔ اس کام کے لیے باقاعدہ شاہی ملازمت بھی اختیار کی لیکن بعد ازاں اپنے مرشد خلیفہ أبو القاسم رحمہ اللہ کی خواہش و دعا کی وجہ سے جلد ہی معاونت کا سلسلہ منقطع کر لیا۔ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ انہی کے بیٹے تھے۔ قاضی سید عنایت اللہ مونگیری رحمہ اللہ یہ ضلع ’مونگیر ‘ کے رہائشی تھے۔ تعلیم کے حصول کے لیے ’دلی‘ گئے اور مولانا سید أبو ظفر ندوی رحمہ اللہ کے بقول فراغت کے کچھ عرصے بعد اپنے علم و فضل کی وجہ سے فتاوی کی تدوین میں شامل کئے گئے۔ ملا سعید رحمہ اللہ یہ ملا قطب الدین شہید سہالوی رحمہ اللہ کے صاحبزادے تھے۔ ان کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ یہ ’فتاوی عالمگیری‘ کی تالیف میں شریک تھے۔