کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 285
بعد ازاں سلطان أورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں یہ کام اپنے عروج کو پہنچا۔ عالمگیر خود بھی فقہی مسائل میں گہری دسترست رکھتا تھا اور وقتاً فوقتاً علماء و فقہاء کی مجالس بھی منعقد کرتا رہتا تھا۔ اس نے فتاوی کی تدوین کے لیے علماء کی ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس کا سربراہ شیخ نظام الدین برہان پوری رحمہ اللہ کو بنا یا۔ علماء کی ایک کمیٹی کو غالباً چار حصوں میں تقسیم کر کے ہر ایک حصے کا ایک صدر بنا دیا گیا اور فتاوی کی جمع و ترتیب کا کام چار حصوں میں تقسیم کر کے ہر ایک جماعت ِ علماء کے سپرد ہوا۔ اس فتاوی کی تالیف پر تقریباً دس لاکھ کا خرچ آیا اور اس میں کم و بیش ایک لاکھ مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ فتاوی تقریباً آٹھ سال میں مکمل ہوا اور اس کی تالیف کا زمانہ تقریباً ۱۰۷۷ء سے ۱۰۸۶ء کے درمیان کا ہے۔ [1]ایک مجہول قول دو سال کا بھی ہے۔ [2]
فتاوی کی تالیف کے أسباب
فتاوی کی تالیف کا عموماً یہی سبب بیان کیا جاتا ہے کہ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر فقہ میں ایک ایسی جامع کتاب کی تدوین کی خواہش رکھتا تھا‘ جس سے حنفی عوام عمومی زندگی اور سلطنت مغلیہ کے قاضی عدالتی فیصلوں میں قانونی و شرعی رہنمائی حاصل کریں۔ محمد طفیل ہاشمی لکھتے ہیں :
’’ گیارہویں صدی ہجری؍ سترہویں صدی عیسوی میں اورنگ زیب عالمگیر نے شیخ نظام رحمہ اللہ کی سربراہی میں مشاہیر علماء کی ایک کمیٹی تشکیل دی تا کہ وہ ایک ایسی جامع کتاب مدون کریں جس میں ظاہر الروایۃ کے وہ تمام مسائل آ جائیں جنہیں علماء کا حسن قبول حاصل ہوا ہو۔ یہ کتاب جسے فتاوی عالمگیری یا ’’الفتاوی الہندیہ‘‘ بھی کہتے ہیں ‘ فقہ کی متدوال کتب کے اسلوب پر ہے۔ اگرچہ فتاوی عالمگیری کو نیم سرکاری حیثیت حاصل تھی‘ لیکن نہ تو یہ کسی سرکاری مجموعہ قوانین کی طرح واجب العمل رہا اور نہ اسلوب و ترتیب میں یہ مجموعہ ہائے قوانین سے مشابہ ہے‘ البتہ اس میں ہر مسئلے سے متعلق مفتی بہ اقوال درج ہیں۔ ‘‘[3]
دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار لکھتے ہیں :
’’اگرچہ شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر(۱۶۵۸ء تا ۱۷۰۷ء)کے عہد حکومت سے قبل اسلامی دنیا میں فقہ کی کئی مستند کتابیں رائج تھیں ‘ لیکن پاکستان و ہند تو درکنار پوری اسلامی دنیا میں فقہ حنفی کی کوئی ایسی واحد کتاب موجود نہ تھی جس سے ایک عام مسلمان آسانی کے ساتھ کسی مفتی بہا مسئلے کو أخذ کر سکے اور أحکام شرعیہ سے بخوب واقف ہو سکے۔ ۔ ۔ اس خیال کے پیش نظر شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے علمائے دہلی کے علاوہ سلطنت کے اطراف و اکناف سے ایسے علماء جمع کیے جنہیں علم فقہ میں کامل دستگاہ تھی اور انھیں حکم دیا کہ مختلف کتابوں کی مدد سے ایک ایسی مستند اور جامع کتاب تیار کریں جس میں نہایت تحقیق و تدقیق کے ساتھ یہ تمام مسائل جمع کیے جائیں تاکہ قاضی اور مفتی نیز دیگر تمام مسلمان علم فقہ کی بہت سی کتابیں جمع کرنے اور ان کی ورق گردانی کرنے سے بے نیاز ہو جائیں۔ ‘‘[4]
فتاوی عالمگیری کے مؤلفین
مرکز تحقیق‘ دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری نے ’فتاوی عالمگیری کے مؤلفین‘ کے نام سے ایک تحقیقی کتاب شائع کی ہے‘ جس کے مؤلف مولانا مجیب اللہ ندوی رحمہ اللہ ہیں۔ مولانا کی تحقیق کے مطابق فتاوی عالمگیری کے مؤلفین درج ذیل ہیں :
شیخ نظام الدین برھان پوری رحمہ اللہ
یہ گجرات کے رہنے والے تھے اور ’ دکن‘ میں ان کی ملاقات عالمگیر سے ہوئی۔ پس آخر دم تک عالمگیر کی حکومت میں بڑے اہم مراتب و عہدوں پر فائز رہے۔
[1] فتاوی عالمگیری کے مؤلفین: ص۱۹
[2] فقہائے ہند : جلد۵؍ ۵۷
[3] امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ : حیات‘ فکر اور خدمات : ص۱۷۳
[4] دائرہ معارف إسلامیۃ : ۱۵؍ ۱۴۶