کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 284
ماضی قریب میں اجتماعی اجتہاد کی کاوشیں اور ان کے ثمرات فصل أول فتاوی عالمگیری فتاوی لفظ ’فتوی‘ کی جمع ہے اور اس کا مادہ ’ف۔ ت۔ و‘ہے۔ عربی زبان میں ’ فتوۃ‘ کا لفظ نوجوانی کے معنی میں مستعمل ہے۔ اسی لیے نوجوان لڑکے کو عربی زبان میں ’فتی‘اور نوجوان لڑکی کو ’فتاۃ‘کہتے ہیں ‘ جن کی جمع علی الترتیب ’فتیۃ‘ اور ’فتیات‘ آتی ہے۔ بعض علماء کا کہنا یہ ہے کہ جب کبھی اسلامی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو تو اس کی اصلاح کی خاطر فتوی جاری کیا جاتا ہے یعنی فتوی کا مقصد کسی صالح اسلامی معاشرے کو فکری و عملی ضعف و کمزوری کے بعد دوبارہ جوانی عطا کرنا ہے۔ اسی لیے فتوی کو’ فتوی‘ کہتے ہیں۔ اس کی جمع ’فتاوی‘ آتی ہے۔ فتوی کی اصطلاحی تعریف کے بارے میں ’المعجم الوسیط‘کے مؤلفین لکھتے ہیں : ’’الجواب عما یشکل من المسائل الشرعیۃ أو القانونیۃ(ج)فتاو أو فتاوی ودار الفتوی مکان المفتی۔ ‘‘[1] ’’فتوی سے مراد شرعی یا قانونی مسائل کی مشکلات کا جواب ہے۔ اس کی جمع ’فتاو‘ یا ’فتاوی‘ آتی ہے۔ دار الافتاء سے مراد مفتی کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ ‘‘ فتاوی عالمگیری کا تاریخی پس منظر برصغیر پاک و ہند میں شروع ہی سے فتاوی کی تصنیف و تالیف کی طرف خاصی توجہ رہی ہے۔ عام طور پر غیاث الدین بلبن (۶۸۶ھ)کے بارے میں معروف ہے کہ اس نے اپنے زمانے کے معروف علماء و فقہاء کو دہلی میں جمع کر کے ایک جامع و مانع فتاوی کی تالیف پر آمادہ کیا تھا۔ بعد ازاں اس دور کے معروف عالم دین شیخ داؤد بن یوسف الخطیب رحمہ اللہ نے ایک فتاوی مرتب کیا جس کا نام ’فتاوی غیاثیہ‘ رکھا گیا۔ بلبن کے بعد جلال الدین فیروز خلجی(۶۹۰ھ)کے زمانے میں معروف فقیہ شیخ مظفر کرامی رحمہ اللہ نے عام لوگوں کی سہولت و آسانی کے لیے سو ال و جواب کے انداز میں ایک فتاوی مرتب کرنا شروع کیا‘ لیکن وہ اس کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ ان کی وفات کے بعد قبول خان قراخان رحمہ اللہ نے اس کو مکمل کیا جس کی وجہ سے یہ’ فتاوی قراخانیہ ‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ سلطان محمد تغلق(متوفی ۷۹۵ھ)کے زمانے میں اس کے ایک وزیر امیر تاتار خان رحمہ اللہ تھے جو ایک سکہ بند عالم دین بھی تھے‘ انہوں نے اپنے ایک معاصر فقیہ شیخ فرید الدین عالم بن عطاء رحمہ اللہ کو ایک فتاوی مرتب کرنے کا مشورہ دیا جو بعد میں ’فتاوی تاتارخانیہ‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ فتاوی تیس جلدوں میں تھا۔ فتاوی عالمگیری میں اس فتاوی سے بہت حوالے ہیں۔ اسی طرح گجرات کے قاضی القضاۃ حماد الدین أحمد رحمہ اللہ کی رہنمائی پر معرو ف و مشہور فقیہ رکن الدین ناگوری رحمہ اللہ اور ان کے بیٹے مفتی داؤد ناگوری رحمہ اللہ نے ایک مجموعہ مسائل و احکام مرتب کیا جو ’فتاوی حمادیہ ‘ کے نام سے معروف ہوا۔ علاوہ ازیں جونپور کے حکمران ابراہیم شرقی رحمہ اللہ کی فرمائش پر قاضی احمد بن محمد نظام الدین جونپوری رحمہ اللہ نے ایک مجموعہ فتاوی مدون کیا جو ’فتاوی ابراہیم شاہی‘ کے نام سے معروف ہے۔ مشہور حکمران ظہیر الدین بابر رحمہ اللہ(متوفی ۸۸۹ھ)کی ایماء پر شیخ نور الدین خوافی رحمہ اللہ نے ایک فتاوی مرتب کیا جس نے ’مجموعہ فتاوی بابری‘ کے نام سے شہرت پائی۔ [2]
[1] المعجم الوسیط:۲؍ ۶۷۳ [2] امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ : حیات‘ فکر اور خدمات : ص۱۹۹۔ ۲۰۱