کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 280
٭ فقہ حنفی کے بنیادی مصادر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر و بیشتر فتاوی میں صاحبین یا ان میں سے کسی ایک یا امام زفر رحمہ اللہ نے امام صاحب سے اختلاف کیا ہے لہذا ایسے مسائل بہت کم ہیں جن میں ان تینوں حضرات کا امام صاحب سے اتفا ق ہو۔ لہٰذاا س مجلس علمی کا اجتماعی اجتہاد باہمی مشاورت و مباحثے کے اعتبار سے تو اجتماعی تھا لیکن فتاوی میں اتفاق رائے کے پہلو سے اس میں اجتماعیت کا عنصر بہت کم نظر آتا ہے۔ ٭ اس میں کوئی شک نہیں کہ عموماً تاریخ اور حدیث کی جانچ پڑتال کے أصول و ضوابط اگرچہ مختلف ہیں لیکن جن تاریخی شخصیات کے حوالے سے بکثرت جھوٹ گھڑا گیا ہو یا ان کی تعریف و تنقیص میں مذہبی اور گروہی تعصبات کی بنا پر مبالغہ کیا گیا ہو تو ان سے متعلقہ روایات کو ہمارے نزدیک اجمالاً أصول حدیث کی روشنی میں پرکھنا چاہیے۔ مثلا ً امام الحرمین امام جوینی رحمہ اللہ متوفی ۴۷۸ ھ نے اپنی کتاب ’البرھان‘میں امام صاحب رحمہ اللہ کے مجتہد نہ ہونے کی یہ دلیل بیان کی ہے کہ وہ عجمی تھے اور انہیں عربی بھی نہ آتی تھی اور ان کی طرف غلط عربی بولنے کا ایک قول بھی منسوب کیاہے لیکن اس کے ثبوت کے لیے کوئی سند بیان نہ کی[1]۔ پس اگر تاریخی روایات میں یہ أصول مان لیا جائے کہ ہر تاریخی روایت کو قبول کر لیاجائے گا تو کسی محترم شخصیت کی مدح میں مبالغے کے ساتھ ساتھ اس کی تنقیص کی روایات کو بھی قبول کرنا پڑے گا اور یہ اجتماع نقیضین ہے۔ پس امام صاحب رحمہ اللہ کے دور میں ہونے والے اجتماعی اجتہاد کی حقیقت اس سے زائد کچھ نہیں ہے۔ واللّٰہ أعلم بالصواب ٭٭٭
[1] البرہان فی أصول الفقہ‘ الکتاب السابع کتاب الفتوی:۲؍ ۸۷۳