کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 279
’’نخعی نے کہا: ہمیں ابراہیم بن اسماعیل طلحی نے اپنے باپ سے ‘ انہوں نے عمر بن حماد بن أبی حنیفہ رحمہ اللہ سے اور انہوں نے اپنے والد حماد رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: میں اپنے والد صاحب کو ایک دن اس طرح بیٹھے دیکھا کہ ان کی دائیں طرف امام أبو یوسف رحمہ اللہ تھے اور بائیں طرف امام زفر رحمہ اللہ تھے اور وہ دونوں کسی مسئلہ میں مناظرہ کر رہے تھے۔ پس أبویوسف رحمہ اللہ جب بھی کوئی بات کرتے تو امام زفر رحمہ اللہ فوراً اس کا توڑ نکال لیتے تھے اور امام زفر رحمہ اللہ جب بھی کوئی بات کرتے تو امام أبویوسف رحمہ اللہ بھی اس کا توڑ نکال لیتے تھے یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہو گیا۔ پس جب مؤذن نے اذان دی تو امام صاحب نے اپنا ہاتھ امام زفر رحمہ اللہ کی ران پر مارا اور کہا: جس شہر میں أبو یوسف رحمہ اللہ ہیں ‘ اس کی علمی قیادت کی خواہش نہ کرنا۔ حماد رحمہ اللہ کہتے ہیں : امام صاحب رحمہ اللہ نے امام زفر رحمہ اللہ کے خلاف امام أبو یوسف رحمہ اللہ کے حق میں فیصلہ دیا۔ ‘‘
امام صاحب کی اصل مجلس مشاورت کے اراکین یہی دو أصحاب تھے اور امام صاحب سے انہی دو أصحاب کے اختلافات امام محمد رحمہ اللہ نے کتب ظاہر الروایہ میں بھی نقل کیے ہیں۔ ہاں بعض اوقات ان کے علاوہ بھی کچھ أصحاب علم و فضل امام صاحب کی مجلس میں وقتاً فوقتاًان سے علمی استفادے کی غرض سے تشریف فرما ہوتے رہتے تھے اور مختلف علمی مسائل میں اپنی آراء کا اظہار کرتے رہتے تھے لیکن فقہ حنفی کے مصادر میں ان حضرات کی آراء منقول نہیں ہوئیں اور نہ ہی فقہ حنفی کی تدوین میں امام أبوحنیفہ‘ قاضی أبو یوسف‘ امام محمد اور امام زفر رحمہم اللہ کے علاوہ کسی کی گراں قدر خدمات تاریخ سے ثابت ہوتی ہیں۔ تاریخ سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ ۱۲۰ھ میں امام صاحب نے کوئی مجلس علم تشکیل دی تا کہ اجتماعی اجتہاد کا کام کیا جاسکے یا اجتماعی اجتہاد کی اس مجلس علمی کے اراکین کی تعداد چالیس تھی۔ تاریخی حقائق سے بس اتنا ثابت ہوتا ہے کہ امام صاحب کی مجلس علمی کوفہ کے جلیل القدر علماء‘ فقہاء اور محدثین کی مجلس تھی اور ان حضرات کا اس مجلس علمی میں شرکت سے مقصود امام صاحب کی فقہی بصیرت اور علم سے استفادہ ہوتا تھا نہ کسی اجتماعی فقہ کی تدوین۔ امام صاحب سے استفادے کی غرض سے ان کی مجلس میں آئے روز نئے نئے علماء و طالبان دین شریک بھی ہوتے رہتے تھے اور کچھ پرانے أصحاب ان سے اختلافات کی وجہ سے ان کو چھوڑ بھی جاتے تھے۔ کچھ ان کی فقہی آراء کے ساتھ اتفاق کرنے والے تھے اور بعض ان کے شدید ترین ناقد تھے۔ جب بھی امام صاحب کی مجلس میں کوئی مسئلہ پیش آتا تو امام صاحب اس پر گفتگو کرتے اور بعض اوقات حاضرین مجلس میں کوئی صاحب آپ کی رائے پر اپنی مثبت یا منفی رائے کا اظہار کر دیتے یا بعض اوقات کسی مسئلے میں امام صاحب ابتداء اًاپنے شاگردوں کو اظہار خیال کا موقع دیتے اور آخر میں اپنی رائے بھی بیان کردیتے تھے۔ مذکورہ بالا بحث کے نتائج کو ہم درج ذیل نکات کی صورت میں سمیٹ سکتے ہیں :
٭ ہمیں امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کی مجلس علمی کے وجود سے انکار نہیں ہے، لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ ثابت کرنا ممکن نہیں ہے کہ امام صاحب نے ۱۲۰ھ میں ایک فقہی مجلس تشکیل دی تھی یعنی یہ کوئی ایسی مجلس علمی نہ تھی جوپہلے سے طے شدہ مقاصد کے حصول کے لیے تشکیل دی گئی ہو بلکہ یہ مجلس استاذ اور شاگردوں کے باہمی تعلق کے نتیجے میں فطری حالات کے تحت وجود میں آئی تھی۔
٭ اس مجلس کے مستقل اراکین قاضی أبو یوسف رحمہ اللہ اور امام زفر رحمہ اللہ تھے جبکہ غیر مستقل اراکین میں کئی اور علمائے کوفہ اور امام صاحب کے شاگرد بھی شامل تھے۔ سوائے چند ایک کے تاریخی روایات سے اس مجلس کے اکثر اراکین کے نام اور ان کی تعداد ثابت نہیں ہوتی۔ لہٰذا ان اراکین کی تعداد چالیس یا اس سے زائد بتلانا اور اس کو ثابت کرنا ایک غیر ضروری بحث ہے۔
٭ فقہ حنفی کی تدوین میں اس مجلس علمی کی کوئی گراں قدر خدمات تاریخی یا فقہی مصادر سے ثابت نہیں ہیں۔ جبکہ کتب ظاہر الروایہ کے مطالعے سے فقہ حنفی کی تدوین میں امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ امام أبو یوسف‘ امام محمد اور امام زفر رحمہم اللہ کی خدمات کا تذکرہ کثرت سے ملتا ہے۔
٭ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ ۱۲۰ھ میں مسند افتاء پر فائز ہوتے وقت امام صاحب کے ہاں اجتماعی اجتہاد کی روشنی میں ایک فقہ کی تدوین پیش نظر تھی۔ اس حد تک یہ بات درست ہے کہ بعض اوقات امام صاحب کی مجلس علمی میں باہمی گفتگو مناظرانہ رنگ اختیار کر جاتی تھی اور اس کے نتیجے میں ایک اجتماعی رائے سامنے آ جاتی تھی۔