کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 278
9۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض أئمہ کو امام صاحب کی طویل صحبت بھی نصیب ہوئی جیسا کہ امام أبو یوسف رحمہ اللہ ہیں۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ أخبرنی الخلال أخبرنا علی بن عمرو الحریری أن علی بن محمد النخعی حدثھم قال: حدثنا إبراہیم بن اسحاق عن بشر بن غیاث قال: سمعت أبا یوسف یقول: صحبت أبا حنیفۃ سبع عشرۃ سنۃ۔ ‘‘[1] ’’مجھے خلال نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں علی بن عمرو حریری نے خبر دی کہ علی بن محمد نخعی نے ان سے بیان کیا: ہمیں ابراہیم بن اسحاق نے بشر بن غیاث سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:میں نے أبویوسف رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں امام صاحب کی صحبت میں سترہ سال رہا ہوں۔ ‘‘ امام أبو یوسف رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق وہ سترہ سال امام صاحب کی صحبت میں رہے۔ ظاہری بات ہے اس صحبت میں کچھ ‘ بلکہ کچھ کیا اکثر وقت انہوں نے ایک طالب علم کی حیثیت سے امام صاحب کی صحبت میں گزارا۔ پس مجلس مشاورت کے ایک رکن کی حیثیت سے انہوں نے چند سال ہی امام صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں گزارے۔ امام صاحب علم و فضل کے جس مقام پر فائز تھے ‘ انہیں قطعاً اس بات کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ کسی مسئلہ میں فتوی دینے کے لیے اپنے شاگردوں ‘ نومولود اور نابالغ بچوں یا اپنے معاصر ناقدین کی کسی مجلس شوری کے محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ کا اجتہاد اکثر وبیشتر انفرادی نوعیت ہی کا تھا۔ امام صاحب رحمہ اللہ کے منہج اجتہاد کے بارے میں انہی کا ایک قول نقل کرتے ہوئے ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ آخذ بکتاب اللّٰہ فإن لم أجد فبسنۃ رسول اللّٰہ فإن لم أجد فبقول الصحابۃ آخذ بقول من شئت منھم ولا أخرج عن قولھم إلی قول غیرھم فأما إذا انتھی الأمر إلی إبراھیم والشعبی وابن سیرین وعطاء فقوم اجتھدوا فاجتھد کما اجتھدوا۔ ‘‘[2] ’’میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں اور اگر کوئی بات مجھے کتاب اللہ میں نہ ملے تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرتا ہوں اور اگر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہ ملے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کے ا قوال میں سے جس کے قول کو چاہتا ہوں ‘اختیار کرلیتا ہوں اور ان کے غیر کے قول کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ لیکن جب معاملہ ابراہیم نخعی‘ شعبی‘ ابن سیرین اور عطاء تک پہنچتا ہے تو میرے نزدیک یہ ایک ایسی قوم ہے جنہوں نے اجتہاد کیا‘ پس میں بھی ویسے ہی اجتہاد کرتا ہوں جیسا کہ انہوں نے کیا(یعنی میں ان کے اقوال کی پابندی نہیں کرتا)۔ ‘‘ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ باہمی رواداری کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے والی اجتماعی رائے کے بالمقابل امام صاحب کو وہ انفرادی اجتہاد زیادہ عزیز تھا‘ جو حق تک ان کو پہنچاسکے۔ لیکن ہمیں اس سے بھی انکار نہیں ہے کہ وہ اپنے ہم نشینوں سے کسی مسئلے میں مشورہ بھی فرما لیتے تھے اور بعض اوقات اس طرح کی مجلس سے کوئی اجتماعی رائے بھی سامنے آ جاتی تھی۔ امام صاحب رحمہ اللہ کی مجلس مشاورت کیا تھی اور کس قسم کی تھی؟۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ اس کے بارے میں امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کے بیٹے سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ وقال النخعی: حدثنا ابراھیم بن اسماعیل الطلحی عن أبیہ عن عمر بن حماد بن أبی حنیفۃ عن أبیہ قال: رأیت أبا حنیفۃ یوماً وعن یمینہ أبو یوسف وعن یسارہ زفر وھما یتجادلان فی مسألۃ فلا یقول أبو یوسف قولا إلا أفسدہ زفر ولا یقول زفر قولا إلا أفسدہ أبو یوسف إلی وقت الظھرفلما أذن المؤذن رفع أبوحنیفۃ یدہ فضرب بھا علی فخذ زفر وقال: لا یطمع فی ریاسۃ ببلدۃ فیھا أبو یوسف قال: وقضی لأبی یوسف علی زفر۔ ‘‘[3]
[1] تاریخ بغداد: ۱۴؍ ۲۵۲ [2] تہذیب التہذیب: ۱۰؍ ۴۰۲ [3] تاریخ بغداد: ۱۴؍ ۲۴۷