کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 276
ایسے نہ تھے جیسا کہ امام صاحب اور صاحبین کے تھے۔ شیخ الخضری بک رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ وکان فی عصرہ من کبار الفقہاء بالکوفۃ ثلاثۃ وھم سفیان بن سعید الثوری من أئمۃ أھل الحدیث۔ ۔ ۔ شریک بن عبد اللّٰہ النخعی۔ ۔ ۔ محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلی۔ ۔ ۔ وکان بین ھؤلاء الفقھاء الثلاثۃ وأبی حنیفۃ وحشۃ۔ ‘‘[1] ’’امام صاحب کے زمانے میں کوفہ میں تین بڑے فقیہ تھے اور وہ امام الحدیث سفیان ثوری رحمہ اللہ۔ ۔ ۔ امام شریک بن عبد اللہ النخعی رحمہ اللہ۔ ۔ ۔ اور قاضی کوفہ محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلی رحمہ اللہ تھے۔ ۔ ۔ ان تینوں فقہاء اور امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کے درمیان وحشت کی سی کیفیت تھی۔ ‘‘ اسی طرح امام حفص بن غیاث رحمہ اللہ کا کہنا تھا کہ میں امام صاحب کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھااور بعض اوقات وہ ایک ہی مجلس میں ایک ہی مسئلے کے بارے میں دس دس فتوے دیتے تھے‘ اورہم اسی شش و پنج میں رہتے کہ ان میں سے کس پر عمل کریں جبکہ وہ خود بھی بعد میں ان فتاوی سے رجوع کر لیتے تھے۔ پس ایک دفعہ ایسا ہوا کہ امام صاحب رحمہ اللہ نے ایک ہی مجلس میں ایک ہی مسئلے کے بارے میں پانچ فتوے دیے تو میں نے ان کی یہ حالت وکیفیت دیکھ کر ان کوترک کر دیا اور حدیث کی طرف متوجہ ہو گیا۔ [2]اسی طرح شریک بن عبد اللہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : کوفہ کی ہر گلی میں مجھے شراب نوشی توگوارہ ہے مگر وہاں کسی حنفی کا ہونا گوارہ نہیں ہے۔ [3]علاوہ ازیں ان حضرات نے امام صاحب سے اختلاف ہی نہیں کیا بلکہ ان کا رد بھی کیاہے۔ لہٰذا امام صاحب رحمہ اللہ سے اس قدر شدید اختلاف رکھنے والوں کو بغیر کسی تاریخی روایت و دلیل کے ان کی مجلس شوری کا رکن کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے؟۔ 5۔ بعض أئمہ کرام ایسے ہیں کہ شاید امام صاحب رحمہ اللہ کی وفات تک بھی وہ شوری کے رکن نہیں ہو سکتے تھے‘ جیسا کہ امام محمد بن حسن رحمہ اللہ ہیں۔ یہ درحقیقت امام أبو یوسف رحمہ اللہ کے شاگرد تھے۔ انہوں نے امام صاحب کی صحبت میں کم عرصہ گزارا۔ بعض مؤرخین کے نزدیک امام محمد رحمہ اللہ کا سن پیدائش ۱۳۵ھ ہے‘ بعضوں نے ۱۳۲ھ بھی لکھا ہے۔ جبکہ امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ ۱۵۰ھ میں فوت ہوئے۔ پس اما م صاحب رحمہ اللہ کی وفات کے وقت ان کی عمر پندرہ سال یا اٹھارہ تھی۔ ظاہر ہے کچھ عرصہ انہوں نے بطور طالب علم بھی گزارا ہوگا۔ معاملہ ایسا تو نہ تھا کہ امام صاحب سے استفادے کے دوران ہی دور چار سالوں میں مجتہدبھی بن گئے ہوں۔ امام محمد رحمہ اللہ کی اگر کچھ عرصہ امام صاحب رحمہ اللہ سے صحبت رہی بھی ہے تو وہ بھی بطور طالب علم کے ہے نہ کہ مجلس شوری کے ایک رکن کی حیثیت سے وہ اما م صاحب کے پاس بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں : ’’اس فہرست میں شاید راوی کی بے خیالی سے اما م محمد شیبانی رحمہ اللہ کانام بھی لے لیا جاتا ہے جو صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ امام محمد رحمہ اللہ کی ولادت ہی ہوئی منصور کی خلافت کے آغاز کے وقت‘ اور امام أبو حنیفہ کی جب ۱۵۰ھ میں وفات ہوئی تو اس وقت ان کی عمر مشکل سے پندرہ سال تھی۔ ‘‘[4] 6۔ فقہ حنفی کے بعض نامور محققین نے بھی اس مجلس کی تفصیلات کے بیان میں بہت بڑی غلطیاں کی ہیں۔ جیسا کہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ امام طحاوی رحمہ اللہ نے یہ بھی روایت کی ہے کہ لکھنے کی خدمت یحی رحمہ اللہ سے متعلق تھی اور وہ تیس برس تک اس خدمت کو انجام دیتے رہے‘ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ اس کام میں کم و بیش تیس برس کا زمانہ صرف ہوا یعنی ۱۲۱ھ سے ۱۵۰ھ تک جو امام أبو حنیفہ کی وفات کا سال ہے‘ لیکن یہ غلط ہے کہ یحی شروع سے اس کام میں شریک تھے‘ یحی ۱۲۰ھ میں پیدا ہوئے تھے‘ اس لیے وہ شروع سے کیونکر شریک ہو سکتے تھے۔ ‘‘[5]
[1] تاریخ التشریع الإسلامی: ص۱۷۰۔ ۱۷۱ [2] کتاب السنۃ لابن امام أحمد:۱؍ ۲۰۵ [3] أیضاً:ص۲۱۵ [4] امام أبو حنیفہ کی تدوین قانون اسلامی : ص۴۸ [5] سیرت النعمان: ص۱۸۱