کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 275
’’ہمیں محمد بن أحمد بن رزق نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں جعفر بن محمد بن نصیر خلدی نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں محمد بن عبد اللہ بن سلیمان حضرمی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں عبد اللہ بن أحمد بن شبویہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ میں نے علی بن مدینی رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ابن عیینہ رحمہ اللہ سے سنا‘ وہ فرما رہے تھے: داؤد طائی رحمہ اللہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے علم و فقاہت حاصل کی اور وہ امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ سے بڑھ چڑھ کر اختلاف کرتے تھے یہاں تک کہ جس مسئلے کے بارے میں امام صاحب رحمہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دیتے تو امام داؤد طائی رحمہ اللہ (غصے سے)کچھ کنکریاں لے کر کسی انسان پر پھینک دیتے۔ ایک دفعہ امام صاحب نے داؤد طائی رحمہ اللہ کو کہا: تمہاری زبان کے ساتھ ساتھ تمہارے ہاتھ بھی لمبے ہو گئے ہیں ؟راوی کہتے ہیں : اس کے بعد بھی وہ ایک سال تک اختلاف کرتے رہے لیکن اس طرح کہ نہ توکوئی سوال کرتے تھے اور نہ ہی کسی مسئلے کا جواب دیتے تھے۔ پس جب امام صاحب کو معلوم ہو گیاکہ وہ صبر بھی کر سکتے ہیں تو وہ ان کتابوں کی طرف متوجہ ہوئے جو انہوں نے امام صاحب سے لکھی تھیں اور انہیں دریائے فرات میں پھینک دیا۔ ‘‘
اسی طرح امام صاحب کی مجلس شوری کے اراکین کی فہرست میں بیان کردہ أئمہ میں سے امام عبد اللہ بن مبارک‘ امام سفیان ثوری‘ امام حفص بن غیاث‘ امام شریک بن عبد اللہ ‘ امام وکیع بن جراح‘ امام فضل بن موسی اور امام مالک بن مغول رحمہم اللہ نے بھی امام صاحب رحمہ اللہ پر نقد کی ہے۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ أخبرنا محمد بن أحمد بن رزق أخبرنا أبوبکر أحمد بن جعفر بن محمد بن سلم الختلی قال : أملی علینا أبو العباس أحمد بن علی بن مسلم الآبار فی شھر جمادی الآخرۃ من سنۃ ثمان وثمانین ومائتین: قال: ذکر القوم الذین ردوا علی أبی حنیفۃ أیوب السختیانی وجریر بن حازم وہمام بن یحی وحماد بن سلمۃ وأبو عوانۃ وعبد الوارث وسوار العنبری القاضی ویزید بن زریع وعلی بن عاصم ومالک بن أنس وجعفر بن محمد وعمربن قیس وأبوعبد الرحمن المقری وسعید بن عبدالعزیز والأوزاعی وعبداللّٰہ بن المبارک وأبو اسحاق الفرازی ویوسف بن أسباط ومحمد بن جابر وسفیان الثوری وسفیان بن عیینۃ وحماد بن أبی سلیمان وابن أبی لیلی وحفص بن غیاث وأبو بکر بن عیاش وشریک بن عبد اللّٰہ و وکیع بن الجراح ورقبۃ بن مصقلۃ والفضل بن موسی وعیسی بن یونس والحجاج بن أرطاۃ ومالک بن مغول والقاسم بن حبیب وابن شبرمۃ۔ ‘‘[1]
’’ہمیں محمد بن أحمد بن رزق نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں أبوبکر أحمد بن جعفر بن محمد بن سلم ختلی نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں أبوالعباس أحمد بن علی بن مسلم الآبار نے جمادی الأخری ۲۸۸ھ کے أواخر میں خبر دیتے ہوئے کہا: علماء کی اس جماعت کہ جنہوں نے امام أبوحنیفہ(کے افکار و فقہی مسائل)کارد کیا‘ میں امام أیوب سختیانی‘ جریر بن حازم‘ ہمام بن یحی‘ حماد بن سلمہ‘ أبوعوانہ‘ عبد الوارث‘ سوار العنبری‘ یزید بن زریع‘ علی بن عاصم‘ امام مالک بن أنس‘ جعفر بن محمد‘ عمر بن قیس‘ أبو عبد الرحمن المقری‘ سعید بن عبد العزیز‘ امام أوزاعی‘ امام عبد اللہ بن مبارک‘ أبواسحاق فرازی‘ یوسف بن أسباط‘ محمد بن جابر‘ امام سفیان ثوری‘ امام سفیان بن عیینہ‘ حماد بن أبی سلیمان‘ ابن أبی لیلی‘ حفص بن غیاث‘ أبوبکر بن عیاش‘ امام شریک بن عبد اللہ‘ امام وکیع بن الجراح‘ رقبہ بن مصقلہ‘ فضل بن موسی‘ عیسی بن یونس‘ حجاج بن أرطاۃ‘ مالک بن مغول ‘ قاسم بن حبیب اور ابن شبرمہ رحمہم اللہ شامل ہیں۔ ‘‘
یہاں ہم یہ بحث نہیں کر رہے کہ ان حضرات أئمہ کی امام صاحب پر تنقید بجا تھی یا نہیں ‘ یہاں ہمارا موضوع یہ ہے کہ جن أئمہ کے بارے میں تاریخ‘ أسماء و رجال اور جرح و تعدیل کی کتابیں اس حوالے سے بھری پڑی ہیں کہ وہ امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ سے شدید فقہی و علمی اختلافات رکھتے تھے‘ ان اصحاب کرام کو بھی صرف چالیس کی گنتی پوری کرنے کے لیے امام صاحب کی مجلس شوری کا رکن ثابت کیا گیا ہے۔ ان أئمہ میں سے بعض کی توامام صاحب کے حوالے سے بہت زیادہ سخت تنقیدیں بھی نقل ہوئی ہیں ‘ جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے امام صاحب سے اختلافات
[1] تاریخ بغداد: ۱۳؍ ۳۷۰۔ ۳۷۱