کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 274
(۱۱۸یا۱۱۹تا۱۸۱ھ)‘ امام أبو سعید یحی بن زکریا(۱۱۹تا۱۸۳ھ یا۱۲۰تا۱۸۴ھ)‘ امام علی بن المسہر(۱۱۹یا ۱۲۰تا ۱۸۹ھ)اورامام حفص بن غیاث(۱۱۷تا ۱۹۴ھ) رحمہم اللہ
٭ جبکہ بعض أئمہ ایسے تھے جو اس مجلس کی تشکیل کے وقت نابالغ تھے جیسا کہ امام زفر( ۱۱۰تا ۱۵۸ھ)‘ امام أبو مطیع بلخی(۱۱۳تا ۱۹۹ھ)‘امام خالد بن سلیمان(۱۱۵تا ۱۹۹ھ)‘امام فضل بن موسی(۱۱۵تا ۱۹۲ھ)‘امام حبان بن علی(۱۱۱تا ۱۷۲ھ)‘ امام زہیر بن معاویہ(۱۱۰تا ۱۷۳ھ)اور امام أبویوسف(۱۱۳تا ۱۸۲ھ) رحمہم اللہ وغیرہ
اس قسم کی مجلس شوری کے اثبات میں کیا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مدح کا کوئی پہلونکلتا ہے ؟۔ شیخ أبو زہرہ رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کی سیرت پر جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں سے اکثر و بیشتر میں مبالغے سے کام لیاگیاہے۔ ان مبالغہ آمیز کتابوں میں سے ایک کتاب موفق بن أحمد مکی کی کتاب’ مناقب الإمام الأعظم‘ بھی ہے۔ اسی کتاب نے امام صاحب کی مجلس شوری کے بارے میں بہت سی غلط فہمیوں کوجنم دیا ہے۔
4۔ علاوہ ازیں اس مجلس شوری کے بعض اراکین ایسے بھی ہیں جو شاید اس لیے اس مجلس کے رکن قرار دیے گئے کہ یا تو وہ کوفی تھے یاکسی سوانح نگار کو امام صاحب کے مناقب پرلکھی گئی کسی کتاب میں ان کے بارے میں یہ مل گیا کہ انہوں نے کچھ دن امام صاحب کی صحبت میں بھی گزارے تھے۔ مجلس شوری کی اس فہرست میں بہت سے نام ان أئمہ کے بھی ہیں کہ جنہوں نے امام صاحب کی مجلس میں کچھ وقت تو گزارا لیکن بعد میں بعض اختلافات کی وجہ سے ان کی مجلس کو چھوڑ دیا اور بعضوں نے تو صرف مجلس چھوڑنے پر اکتفا نہ کیا‘ بلکہ امام صاحب کو ہدف تنقید بھی بنایا۔ مثال کے طور پر امام داؤد الطائی رحمہ اللہ شروع میں تو امام صاحب کی صحبت میں رہے‘ لیکن جلد ہی ان پر زہد و ورع کا غلبہ ہوا تو انہوں نے امام صاحب کی مجلس چھوڑ دی۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ أخبرنا الحسن بن أبی طالب أخبرنا علی بن عمرو الحریری أن علی بن محمد بن کاس النخعی حدثھم قال حدثنا أحمد بن أبی أحمد الختلی حدثنا محمد بن اسحاق البکائی حدثنا الولید ابن عقبۃ الشیبانی قال لم یکن فی حلقۃ أبی حنیفۃ أرفع صوتا من داؤد الطائی ثم إنہ تزھد واعتزلھم وأقبل علی العبادۃ۔ ‘‘[1]
’’ہمیں حسن بن أبی طالب نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں علی بن عمرو حریری نے خبر دی کہ علی بن محمدبن کاس نخعی نے انہیں بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں أحمد بن أبی أحمد ختلی نے بیان کیاہے‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں محمد بن اسحاق بکائی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں ولید بن عقبہ شیبانی نے بیان کیا: امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کے حلقہ درس میں داؤد طائی رحمہ اللہ سے زیادہ اونچی آواز والا کوئی شخص نہ تھا۔ پھر اس پر زہد طاری ہوگیا تو اس نے امام صاحب اور آپ کے شاگردوں کی مجلس کو چھوڑ دیا اور عبادت کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو گیا۔ ‘‘
خطیب بغدادی رحمہ اللہ ہی کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں :
’’أخبرنا محمد بن أحمد بن رزق أخبر جعفر بن محمد بن نصیر الخلدی حدثنا محمد بن عبد اللّٰہ ابن سلیمان الحضرمی حدثنا عبد اللّٰہ بن أحمد بن شبویہ قال سمعت علی بن المدینی یقول سمعت ابن عیینۃ یقول کان داؤد الطائی ممن علم وفقہ قال وکان یختلف إلی أبی حنیفۃ حتی نفد فی ذلک الکلام قال فأخذ حصاۃ فحذف بھا انسانا فقال لہ یا أبا سلیمان طال لسانک وطالت یدک؟ قال فاختلف بعد ذلک سنۃ لا یسأل ولا یجیب فلما علم أنہ یصبر عمد إلی کتبہ فغرقھا فی الفرات ثم أقبل علی العبادۃ وتخلی۔ ‘‘[2]
[1] تاریخ بغداد: ۸؍ ۳۴۸
[2] أیضاً:۸؍ ۳۴۷۔ ۳۴۸