کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 273
حضرات کی ایک اور مجلس خصوصی تھی۔ جس کے رکن امام أبو یوسف‘ امام زفر‘ داؤد طائی‘ أحمدبن عمر‘ یوسف بن خالد‘ یحی بن زائدۃ‘ امام محمد‘ عبد اللہ بن مبارک اور خود امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ تھے۔ [1] مفتی عزیز الرحمن صاحب ان چالیس شرکائے مجلس کے نام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
امام زفر رحمہ اللہ متوفی ۱۵۸ یا۱۶۲ھ امام مالک بن مغول رحمہ اللہ متوفی ۱۵۹ھ
امام داؤد بن نصیر طائی رحمہ اللہ متوفی ۱۶۰ھ امام مندل بن علی رحمہ اللہ متوفی۱۶۸ھ
امام نصر بن عبد الکریم رحمہ اللہ متوفی۱۶۹ھ امام عمر بن میمون بلخی رحمہ اللہ متوفی ۱۷۱ھ
امام حبان بن علی رحمہ اللہ متوفی۱۷۲ھ امام أبو عصمہ رحمہ اللہ متوفی ۱۷۳ھ
امام زہیر بن معاویہ رحمہ اللہ متوفی ۱۷۳ھ امام قاسم بن معن الہذلی رحمہ اللہ متوفی ۱۷۵ھ
امام ہیاج بن بسطام رحمہ اللہ متوفی ۱۷۷ھ امام شریک بن عبد اللہ رحمہ اللہ متوفی ۱۷۷ یا ۱۷۸ھ
امام عافیہ بن یزید رحمہ اللہ متوفی ۱۸۰ھ امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ متوفی۱۸۱ھ
امام أبویوسف رحمہ اللہ متوفی ۱۸۲ھ امام محمد بن نوح رحمہ اللہ متوفی ۱۸۲ھ
امام ہشیم بن بشیر أسلمی رحمہ اللہ متوفی۱۸۳ھ امام أبو سعید یحی بن زکریا رحمہ اللہ متوفی ۱۸۳ھ یا۱۸۴ھ
امام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ متوفی ۱۸۷ھ امام أسد بن عمرو رحمہ اللہ متوفی ۱۸۸ھ
امام محمدبن الحسن رحمہ اللہ متوفی۱۸۹ھ امام علی بن المسہ رحمہ اللہ رمتوفی ۱۸۹ھ
امام یوسف بن خالد رحمہ اللہ متوفی۱۸۹ھ یا ۱۹۰ھ امام عبد اللہ بن ادریس رحمہ اللہ متوفی۱۹۲ھ
امام فضل بن موسی رحمہ اللہ متوفی ۱۹۲ھ امام علی بن ظبیان رحمہ اللہ متوفی ۱۹۲ھ
امام حفص بن غیاث رحمہ اللہ متوفی۱۹۴ھ امام وکیع بن الجراح رحمہ اللہ متوفی ۱۹۷ یا ۱۹۸ھ
امام ہشام بن یوسف رحمہ اللہ متوفی ۱۹۷ھ امام یحی بن سعید القطان رحمہ اللہ متوفی ۱۹۸ھ
امام شعیب بن اسحاق رحمہ اللہ متوفی ۱۹۸ھ امام أبو حفص بن عبد الرحمن رحمہ اللہ متوفی ۱۹۹ھ
امام أبو مطیع بلخی رحمہ اللہ متوفی ۱۹۹ھ امام خالد بن سلیمان رحمہ اللہ متوفی ۱۹۹ھ
امام عبد الحمید رحمہ اللہ متوفی ۲۰۲ھ امام حسن بن زیادہ رحمہ اللہ متوفی ۲۰۴ھ
امام أبو عاصم النبیل رحمہ اللہ متوفی ۲۱۲ھ امام مکی بن ابراہیم رحمہ اللہ متوفی ۲۱۵ھ
امام حماد بن الامام أعظم رحمہ اللہ متوفی ۱۷۶ھ امام حماد بن دلیل رحمہ اللہ متوفی ۲۱۵ھ[2]
3۔ اگر توموفق بن أحمد مکی رحمہ اللہ اور ان کے متبعین سوانح نگاروں کی اس بات کو درست مان لیا جائے کہ امام صاحب نے ۱۲۰ھ میں مذکورہ بالا مجلس مشاورت تشکیل دی تو پھر اس وقت جبکہ امام صاحب رحمہ اللہ نے یہ مجلس مشاورت تشکیل دی تھی:
٭ آپ کی مجلس کے بعض ارکان ابھی پیدابھی نہیں ہوئے تھے مثلاًامام محمدبن الحسن(۱۳۲ یا۱۳۵تا ۱۸۹ھ)‘امام یوسف بن خالد(۱۲۳تا ۱۸۹یا۱۹۰ھ)‘امام عبد اللہ بن ادریس(۱۲۰تا۱۹۲ھ)‘امام وکیع بن الجراح( ۱۲۹تا۱۹۷یا ۱۹۸ھ)‘امام ہشام بن یوسف(۱۲۰تا ۱۹۷ھ)‘ امام یحی بن سعید القطان(۱۲۰تا۱۹۸ھ)‘ امام شعیب بن اسحاق(۱۲۶تا ۱۹۸ھ)‘ امام عبد الحمید( ۱۲۰تا۲۰۲ھ)‘ امام أبو عاصم النبیل(۱۲۲تا ۲۱۲ھ)اورامام مکی بن ابراہیم(۱۲۵یا ۱۲۶تا ۲۱۵ھ) رحمہم اللہ وغیرہ
٭ جبکہ اس مجلس کی تشکیل کے وقت بعض أئمہ ایسے تھے جو ابھی نومولود تھے یعنی ان کی عمر ایک‘ دویا تین سال تھی جیسا کہ امام عبد اللہ بن مبارک
[1] سیرت امام أعظم أبو حنیفہ : ص۱۴۵
[2] أیضاً: ص۱۴۹۔ ۱۵۱