کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 272
اپنے عظیم استاد حماد بن أبی سلیمان کے جانشین مقرر ہوئے۔ ۔ ۔ مسند استاد پر جلوہ افروز ہوتے ہی انہوں نے عزم مصمم کر لیا کہ اس فقید المثال میراث کے تحفظ اور اسے آئندہ نسلوں تک پہنچانے کا اہتمام کریں گے‘ چناچہ أبو حنیفہ رحمہ اللہ نے قرآن وسنت سے فقہی مسائل کے استنباط اور ان مسائل کی باب وار تدوین کی غرض سے اپنے سینکڑوں شاگردوں میں سے کچھ خاص قابلیت اور مہارت کے حامل تلامذہ پر مشتمل مجلس تدوین فقہ تشکیل دی۔ ‘‘[1]
ہمارے نزدیک یہ بیان ہی سرے سے درست نہیں ہے کہ امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ نے ۱۲۰ھ میں فقہ کی تدوین کا ایک اجتماعی ادارہ قائم کیا تھاچہ جائیکہ اس کے اراکین کی بھی ایک لمبی چوڑی فہرست بغیر سوچے سمجھے بیان کر دی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مورخین کا تقریباً اس بات پر اتفاق ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ۱۲۰ھ میں مسند افتاء سنبھالی اور اس کا بھی امکان ہے کہ وہ اسی سال کے دوران ہی فقہ کی تدوین کی اشد ضرورت بھی محسوس کر رہے ہوں۔ لیکن یہ کہنابہر حال درست معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے پیش نظر اس وقت کسی ایسی فقہ کی تدوین تھی جو کسی مشاورتی اجتہاد کا نتیجہ ہو۔ اگرچہ فقہ الواقع میں ایسابھی ہوا کہ امام صاحب کی مجلس میں بعض دفعہ کوئی مسئلہ پیش آیا تو اس میں چند اصحاب کی اجتماعی مشاورت سے ایک معاملہ طے ہو گیا‘ لیکن اس کے برعکس امام صاحب کا اصل اجتہاد‘ انفرادی اجتہاد ہی تھا۔ آگے چل کر ہم اس پر مزید روشنی ڈالیں گے۔
2۔ جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں ‘ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی اس مجلس شوری کی کوئی تعداد متعین نہ تھی اور نہ ہی اس کے اراکین کے نام معلوم ہیں لیکن کے اس کے باوجود اکثر و بیشتر سوانح نگاروں نے ان ممبران کی تعداد چالیس یا اس سے بھی زائدبتلائی ہے اور ان کے نام بھی متعین کرنے کی کوشش کی ہے اور ان شرکائے مجلس کے ناموں کی تحقیق کا عموماً معیار یہی رکھا گیا ہے کہ جس بھی معروف عالم دین کے بارے میں ان کو اسماء و رجال کی کتب کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ وہ کوفہ میں رہائش پذیر تھے اور اسی صدی ہجری میں ان کی پیدائش ہوئی تھی کہ جس میں امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کی وفات ہوئی یا ان کو تاریخ کی کسی کتاب میں ان امام صاحب کے بارے میں ’صحبہ‘یا ’ لزمہ‘ یا ’لازمہ‘جیسے الفاظ مل گئے تو انہوں نے اس عالم دین کو اس مجلس کا رکن بنا کر ہی چھوڑا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جن مؤرخین نے اس مجلس مشاورت کے شرکاء کی تعداد معین کرنے کی کوشش کی ہے‘ خود ان کے بیانات میں بھی تضاد پایا جاتاہے۔ جناب افتخار الحسن میاں لکھتے ہیں :
’’اس مجلس فقہ کے ارکان کی تعداد کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے سوانح نگاروں اور مؤرخین کے اقوال میں اختلاف پایا جاتاہے۔ بعض نے ان کی تعداد چالیس بیان کی ہے‘ کچھ دس بتاتے ہیں ‘ بعض کتابوں میں تیس ارکان کا ذکر ہے‘ مگر مناقب و تراجم اور تاریخ کی کسی کتاب میں پورے چالیس ارکان مجلس کے اسمائے گرامی‘ ان کے عہد(سنین ولادت و وفات)اور تخصصات کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ ہم نے متعلقہ مصادر کی ورق گردانی کی تومعلوم ہوا کہ یہ تعداد چالیس تک محدود نہ تھی۔ ‘‘[2]
بہر حال زیادہ تر سوانح نگاروں نے اس مجلس کے ارکان کی تعداد چالیس یا اس سے زائد ہی بتلائی ہے۔ محمد طفیل ہاشمی صاحب لکھتے ہیں :
’’امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ نے تدوین فقہ کے لیے ایک مجلس تشکیل دی جو چالیس افراد پر مشتمل تھی۔ ‘‘[3]
میاں افتخار الحسن صاحب لکھتے ہیں :
’’ڈاکٹر حمید اللہ نے بھی مجلس فقہ کے ارکان کی تعداد چالیس بتائی ہے اور انیس ارکان کے نام درج کیے ہیں۔ ڈاکٹر محمد صدیقی نے چالیس ارکان مجلس کے اسماء و سنین وفات درج کیے ہیں۔ ‘‘[4]
اسی طرح مفتی عزیز الرحمن بنجوری صاحب لکھتے ہیں :
’’چناچہ امام صاحب نے اپنے ہزاروں شاگردوں میں سے چالیس ماہر فن اشخاص منتخب کیے۔ امام طحاوی رحمہ اللہ نے بسند متصل بیان کیاہے کہ اس مجلس کے اراکین کی تعداد چالیس تھی۔ یہ سب کے سب حضرات درجہ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ ان چالیس میں سے دس بارہ
[1] امام أبوحنیفہ رحمہ اللہ : حیات‘ فکر اور خدمات : ص۲۱۴
[2] أیضاً
[3] أیضاً:ص۱۷۹
[4] أیضاً:ص ۲۱۶