کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 271
سے چلا آ رہا تھا۔ شیخ أبو زہرہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’امام مالک رحمہ اللہ کی مدینہ میں مجلس علمی قائم تھی‘ اس میں بڑے بڑے علماء سے مذاکرے کرتے تھے ‘ خواہ مدینہ کے باشندہ ہوں یا وفد میں مدینہ آئے ہوں۔ ۔ ۔ فقہی مسائل کے مذاکرہ کے لیے چونکہ امام مالک رحمہ اللہ کو خاص توجہ تھی ‘ اس لیے فقہائے مدینہ کے لیے ان کی ایک مخصوص مجلس تھی‘ یا جو علماء مدینہ میں مقیم ہوں ‘ وہ شریک ہوتے تھے‘ لیکن عام کے لیے اس مجلس کا دروازہ کھلا ہوا نہیں تھا۔ مدارک میں لکھا ہو اہے: ابن المنذر رحمہ اللہ نے کہا‘ امام مالک رحمہ اللہ کا ایک حلقہ تھا کہ اس میں صرف فقہائے مدینہ کو بٹھاتے تھے‘ اسے کسی کے لیے وسیع نہ کرتے تھے‘ نہ اس میں کسی کو بلاتے تھے جو اس میں بیٹھ سکے جب تک کہ مجلس ختم نہ ہوجائے۔ ‘‘[1] أہل کوفہ کی مجلس مشاورت اہل مدینہ کی مجلس علمی کی طرح کوفہ میں بھی ایک علمی مجلس قائم تھی جو امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ ‘ ان کے شاگردوں اور کوفہ کے معاصر علماء پر مشتمل تھی۔ ا س مجلس کے ارکان کی تعداد مقرر نہ تھی اور نہ ہی اس کے کوئی متعین ممبرز تھے۔ صورت واقعہ یوں تھی کہ بعض اوقات کوئی مسئلہ پیش آتا تو اس وقت امام صاحب کی مجلس میں موجودان کے شاگرد یا معاصرعلماء اس کے بارے اپنی رائے کا اظہار کرتے اور باہمی تبادلہ خیال کے نتیجے میں ایک رائے بن جاتی تھی۔ یہ رائے بعض اوقات متفق علیہ ہوتی تھی اور بعض اوقات اس میں اختلاف بھی ہوتا تھا۔ لیکن امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ کے بعض سوانح نگاروں نے اس مجلس شوری کی تفصیل میں ایسا مبالغہ کیا ہے جو تاریخی حقائق کے منافی ہے اورتحقیق کے جدید معیارات پر بھی پورا نہیں اترتا۔ ہمارے ہاں برصغیر پاک و ہند میں امام صاحب رحمہ اللہ کی اس مجلس کے بارے میں کئی ایک تحقیقی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ حنفیہ نے اگر اس مجلس کی تفصیلات میں مبالغے سے کام لیا ہے تو اہل الحدیث نے سرے ہی سے اس مجلس کے وجود کا ہی انکار کر دیاہے۔ اس لیے ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ حنفیہ اور اہل الحدیث کے محققین کے غلو میں مبنی بر اعتدال موقف پیش کریں اوراس مجلس کے بارے میں پائی جانے والی بعض غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں : 1۔ جتنے بھی سوانح نگاروں نے امام صاحب کی ذات یا ان کی مجلس شوری کے حوالے سے مبالغہ آمیز اور غیر مستند قیاس آرائیں بیان کی ہیں ‘ان سب کی غلط فہمیوں کی بنیاد موفق بن أحمدمکی رحمہ اللہ متوفی ۵۶۸ھ کی کتاب’مناقب الإمام الأعظم أبی حنیفۃ‘ہے۔ اکثر متاخرین نے بغیر کسی ذاتی تحقیق کے ’موفق مکی رحمہ اللہ ‘کی بیان کردہ روایات پر اعتماد کیا ہے‘ جس کی وجہ سے اس مجلس شوری کے بارے میں ان محققین کی تحریروں میں عجیب و غریب بیانات ملتے ہیں۔ موفق بن أحمد مکی رحمہ اللہ کی ایک روایت کے مطابق امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے تقریباً ۱۲۰ھ میں اس مجلس شوری کی بنیاد رکھی۔ جبکہ امام صاحب کی وفات ۱۵۰ھ میں ہوئی تو فقہ حنفی کی تدوین کا کل دورانیہ تیس سال ہوا۔ شبلی نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’یہ امر تاریخوں سے ثابت ہے کہ امام صاحب کو تدوین فقہ کا خیال قریباً ۱۲۰ھ میں پیدا ہوا‘ یعنی جب ان کے استاد حماد رحمہ اللہ نے وفات پائی۔ ۔ ۔ امام صاحب نے جس طریقہ سے فقہ کی تدوین کا ارادہ کیا‘ وہ نہایت وسیع اور پر خطرکام تھا‘ اس لیے انھوں نے اتنے بڑے کام کو اپنی ذاتی رائے اور معلومات پر منحصر نہیں کرنا چاہا‘ اس غرض سے انہوں نے اپنے شاگردوں میں سے چند نامور شخص انتخاب کیے جن میں اکثر خاص خاص فنون میں جو تکمیل فقہ کے لیے ضروری تھے‘ استاد زمانہ تسلیم کیے جاتے تھے۔ ۔ ۔ امام صاحب نے ان لوگوں کی شرکت سے ایک مجلس مرتب کی اور باقاعدہ طور سے فقہ کی تدوین شروع ہوئی۔ ‘‘[2] میاں افتخار الحسن لکھتے ہیں : ’’امام أبوحنیفہ النعمان بن ثابت رحمہ اللہ ۱۲۰ھ ہجری میں کوفہ کی جامع مسجد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے قائم ہونے والے مدرسہ فقہ میں
[1] امام مالک رحمہ اللہ : ص۱۳۷۔ ۱۳۸ [2] سیرۃ النعمان:ص۱۸۰۔ ۱۸۱