کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 270
رسول کے بعد تابعین رحمہم اللہ نے بہت سی باتوں میں اختلاف کیاہے۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ اور اسی قسم کے دوسرے لوگوں نے شدید اختلاف کیا ہے۔ پھر ان لوگوں نے اختلاف کیا جو ان کے بعد آئے‘ میں مدینہ میں ان لوگوں سے مل چکاہوں اور مدینہ کے علاوہ بھی ملا ہوں ‘ ان اختلاف کرنے والوں کے سردار آج کل ابن شہاب رحمہ اللہ اور ربیعہ بن أبی عبد الرحمن رحمہ اللہ ہیں۔ جب میں آپ کے پاس حاضر ہوا‘ اور میں نے آپ کی باتیں سنیں ‘ سمجھیں اور پہچانیں تو معلوم ہوا کہ جو کچھ پہلے لوگ گزر چکے ہیں اس کے خلاف ربیعہ رحمہ اللہ کی رائے ہے‘ ربیعہ رحمہ اللہ کے اقوال ان لوگوں کے بھی خلاف تھے جو اہل مدینہ میں صاحب رائے تھے‘ جیسے یحی بن سعید رحمہ اللہ ‘ عبید اللہ بن عمر رحمہ اللہ اور کثیر بن فرقد رحمہ اللہ اور کثیر رحمہ اللہ کے علاوہ دوسرے جو ربیعہ رحمہ اللہ سے عمر میں بڑے تھے‘ یہاں تک کہ ان کی باتوں سے اختلاف کی وجہ سے آپ ربیعہ رحمہ اللہ کی مجلس چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ۔ ۔ ہم جب ابن شہاب رحمہ اللہ سے ملے تو ان سے بہت سے اختلافات تھے‘ اور جب ہم میں سے کسی نے ان کو لکھا تو اکثر انہوں نے اپنی رائے اور علم کی فضیلت کی وجہ سے ایک بات میں تین طرح سے جواب دیا‘ ایک رائے دوسرے کی نقیض ہے‘ اور جو ان کی رائے پہلے گزر چکی اس کا خیال نہیں ہے۔ ان باتوں نے مجھے ان باتوں کے چھوڑنے پر مدعو کیاجن کے چھوڑنے کو میں نے برا سمجھا تھا۔ میں نے اپنے انکار کا عیب پہچان لیا‘ یہ کہ مسلمانوں کے گروہ میں سے کوئی بارش کی رات دو نمازوں کو جمع کرے۔ اس بات کو اللہ ہی جانتاہے کہ شام میں بارش مدینہ سے زیادہ ہوتی ہے‘ اماموں میں سے کسی نے بھی بارش کی رات میں دونوں نمازیں جمع نہ کیں ‘ ان اماموں میں أبو عبیدہ بن الجراح ‘خالد بن ولید‘ یزید بن ابی سفیان‘ عمرو بن العاص اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم ہیں ‘ ہمیں پہنچا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ حلال و حرام کے زیادہ جاننے والے ہیں ‘ اور کہا گیا: قیامت کے روز علماء سے آگے معاذ رضی اللہ عنہ نقش قدم پر ہوں گے۔ شرجیل بن حسنہ ‘ ابودرداء اور بلال بن رباح رحمہم اللہ بھی وہاں کے اماموں میں ہیں۔ حضرت أبو ذر غفاری رضی اللہ عنہ مصر میں تھے‘ حمص میں زبیر بن عوام ‘ سعد بن أبی وقاص اور اہل بدر کے ستر صحابی(رضی اللہ عنہم)تھے‘ تمام مسلمانوں کے لشکر موجود تھے‘ عراق میں ابن مسعود تھے‘ حذیفہ بن الیمان تھے‘ عمران بن حصین تھے( رضی اللہ عنہم)‘ اور عراق میں أمیر المؤمنین علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ دو سال تک رہے‘ آپ کے ساتھ اصحاب رسول تھے‘ ان لوگوں میں سے کسی نے بھی کبھی بھی مغرب اور عشاء کو جمع نہیں کیا۔ ۔ ۔ ہمیں آپ کے بعض فتوے ملے ہیں جو ناپسند ہیں ‘ جن میں سے بعض کی نسبت میں آپ کو لکھ چکا ہوں ‘ لیکن آپ نے میرے خط میں جواب نہیں دیا۔ ۔ ۔ میں آپ کو بہت پسند کرتاہوں ‘ اللہ کی توفیق آپ کے ساتھ ہو‘ خدا آپ کو تادیر سلامت رکھے‘ میں اس میں مخلوق کے لیے بھلائی کی توقع رکھتا ہوں ‘ اگرچہ آپ بہت دور ہیں لیکن آپ کا مرتبہ مجھ سے قریب ہے‘ آپ کی رائے کا میرے لیے بلند مقام ہے‘ میں اس پر یقین کرتا ہوں ‘ آپ اپنی مراسلت بند نہ فرمائیں ‘ اور اپنا حال بتاتے رہیں ‘ اپنے بیٹے اور اہل و عیال کا حال لکھتے رہیں ‘ اگر میرے لائق کام ہو تو تحریر فرمائیں ‘ یا اگر کسی اور کی ضرورت ہوجو آپ کے قریب ہے تو مجھے اس سے خوشی ہو گی۔ میں نے یہ آپ کو لکھا‘ ہم لوگ صالح ہیں ‘ معافی چاہنے والے ہیں ‘ الحمد للہ !خدا سے دعا ہے کہ وہی ہمیں رزق دے‘ میں آپ کا شکر گزار ہوں ‘ تمام کرتاہوں نعمتوں کے شکریہ کے ساتھ‘ والسلام علیک و رحمۃ اللہ۔ ‘‘[1]
فقہی مجالس علمیہ کا قیام
اس دور میں اہل مدینہ اور اہل کوفہ کے ہاں ایسے حلقہ ہائے مجالس تھے کہ جن میں کسی مسئلے کے بارے میں اجتماعی غور و فکربھی ہوتاتھا۔ یہ مجالس علمیہ کوئی آج کی طرح کے مجمعات(Academies)کی طرح نہ تھیں اور نہ ہی ان کے کوئی طے شدہ اراکین یا تعداد تھی بلکہ ان علاقوں کے کسی معروف امام کے شاگرد اور ہم عصر علماء بعض اوقات کسی مسئلے میں مل بیٹھ کر مشاورت کر لیتے تھے اور اس طرح ایک اجتماعی فتوی وجود میں آ جاتا تھا۔ ذیل میں ہم اس دور کی دو عظیم مجالس علمیہ پر روشنی ڈال رہے ہیں :
أہل مدینہ کی مجلس مشاورت
مدینہ میں فقہائے اہل مدینہ مختلف مسائل پر وقتاً فوقتاًمل جل کرمشاورت کرتے رہتے تھے۔ مشاورت کا یہ طریقہ فقہائے سبعہ کے زمانے
[1] امام مالک رحمہ اللہ: ص۱۴۰۔ ۱۴۳‘ ۱۴۶‘ ۱۴۸