کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 269
نجات کی امید ہو۔ اور اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ’’مہاجرین اور انصار میں سبقت کرنے والے اولین ہیں ‘‘۔ اور نیز فرمایا ہے’’میرے ان بندوں کو بشارت دے دو جوآپ کے قول کو سنتے ہیں اور اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں ‘‘۔ لوگ بیشک اہل مدینہ کا اتباع کرتے ہیں ‘ مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی اور مدینہ میں قرآن نازل ہوا‘ یہیں اللہ نے حلال کو حلال کیا اور حرام کو حرام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے تھے اور وحی و قرآن ان کے سامنے نازل ہوتے تھے‘ ان لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم فرماتے تھے اور یہ پیروی کرتے تھے‘ انھیں طریقہ سکھاتے تھے اور وہ اس کاتتبع کرتے تھے‘ یہاں تک کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی‘ اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س تھا اسے حاصل کر لیاگیا۔ خدا کا درود و سلام رسول پر اور اس کی برکتیں اور رحمتیں رسول پر ہوں۔ اس کے بعد یہ ہو اکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں اس کی پیروی کرنے لگے جو صاحب امر ہوا‘ جو نہیں جانا اسے چھوڑ دیا۔ اور جس بات کا علم نہیں تھا اسے پوچھ لیا‘ اپنے اجتہاد اور اپنے زمانے کے نئے مسائل میں جو کچھ پایااس کے قوی ترین پرعمل کیا‘ اور اگر کسی نے مخالفت کی یا ایسی بات کہی جو اس سے زیادہ قوی اور اس سے بہتر تھی‘ تو اس پہلی بات کو چھوڑ دیا اور دوسری قوی کو مان لیا۔ پھر ان کے بعد تابعین کا دور آیا‘ وہ بھی اسی مسلک پر چلتے تھے اور اسی سنت پر عمل کرتے تھے۔ جب مدینہ میں کوئی بات ظاہر و باہر تھی اور معمول تھی اور کسی کو اس کے خلاف کرتے نہیں پایا‘جو لوگ ان کے سامنے موجود تھے وہ اس معمول کے وارث تھے اور سب اس پر عمل کرتے تھے‘ تو اس سے الگ ہونا اور اس کے خلاف ہونا جائز نہیں ہے۔ اگرچہ لوگ دوسرے شہروں کے کہتے ہیں ‘ ہمارے شہر کایہ طریقہ ہے‘ یہ وہ ہے جس پر سب گزشتہ چلے اور اس میں ثقہ کی کوئی بات نہیں ہے۔ لہٰذا تم غور کرو‘ خدا تم پر رحم کرے ‘ میں نے یہ جو کچھ تمہارے لیے لکھا ہے‘ یہ یقین کرو کہ میں امید کرتا ہوں جو کچھ میں نے تمہیں لکھا ہے اس کا کوئی اور سبب نہیں ہے‘ سوائے اس کے کہ یہ نصیحت خالصتاً للہ ہے‘ اب اس پر تم غور کرو‘ اور میرے خط کو اس کے مرتبہ پر رکھو‘ اگر تم نے اس پر عمل کیا تو یہ معلوم ہو جائے گاکہ میں نے کس لیے تمہیں نصیحت کی ہے‘ خدا مجھے اور تمہیں اپنی اطاعت کی توفیق دے اور اس کے رسول کی اطاعت کی تمام معاملات میں اور تمام حالات میں ہمیں توفیق دے۔ والسلام علیک و رحمۃ اللہ۔ ‘‘[1]
امام مالک رحمہ اللہ کے اس خط کے جواب میں امام لیث بن سعد رحمہ اللہ نے بھی جواباً ایک طویل خط لکھا جس کا تذکرہ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ’إعلام الموقعین‘میں کیا ہے۔ اس خط میں امام لیث رحمہ اللہ نے عمل اہل مدینہ کی حجیت کی شرعی حیثیت کو نکھارا ہے۔ ذیل میں ہم اس خط کے چند اہم حصوں کا اردو ترجمہ نقل کر رہے ہیں :
’’السلام علیکم! میں خدائے تعالیٰ کی تعریف کرتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ أما بعد‘ خدا ہمیں اور آپ کو معاف کرے اور دین و دنیا میں انجام بخیر کرے۔ مجھے آپ کا خط ملا جس میں آپ نے اپنے حال کی صلاح کا ذکر فرمایا ہے‘ مجھے خوشی ہوئی‘ خدا اس کو ہمیشہ آپ کے لیے رکھے‘ اور اپنے انعام سے اس کے اتمام میں مدد فرمائے۔ اپنے احسان کو زیادہ فرمائے۔ میں نے جو کتابیں آپ کے پاس بھیجی تھیں ‘ آپ نے اس پر اپنا نظریہ بیان کیااور اپنے مسلک کا ذکر کیا ہے‘ خدا اس پر آپ کا خاتمہ کرے۔ یہ ہمیں آپ نے پہنچایا ‘ جوکچھ آپ نے خیر بھیجی ہے‘ خدا آپ کو اس کی جزا دے۔ یہ کتابیں آپ کی طرف سے ہمیں موصول ہوئیں ‘ لہذا میں یہ پسند کرتا ہوں کہ اس کی حقیقت آپ کے سامنے پیش کر دوں۔ آپ نے بیان کیاکہ میں نے جو کچھ آپ کولکھا اس میں درستی ہے اور آپ کو مسرت ہوئی‘ آپ کی نصیحت جو مجھے ملی‘ آپ نے امید کی ہے کہ میرے نزدیک اس کامقام ہو گا‘ تو آپ کی رائے ہم لوگوں کو بہت پسند ہے‘ ورنہ میں اس قسم کی باتیں آپ سے بیان نہ کرتا‘ آپ کو معلوم ہوا ہے کہ میں اہل مدینہ کے مسلک کے خلاف معاملات میں فتوے دیتا ہوں۔ حق یہ ہے کہ جو بزرگ پہلے مجھ سے فتوی دے چکے ہیں ان پر مجھے اعتماد ہے اور میں دل میں اس کا بڑاخیال رکھتا ہوں ‘ بے شک لوگ اہل مدینہ کی پیروی کرتے ہیں جہاں ہجرت ہوئی ہے اور جہاں قرآن اترا ہے۔ اس سلسلے میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے‘ وہ بالکل صحیح سمجھتا ہوں ‘ مجھ سے وہی باتیں صادر ہوئی ہیں جو آپ پسند کرتے ہیں۔ کسی کی نسبت اگر علم سے ہے تو کم فتوے دینے کی وجہ سے میں اسے ناپسند نہیں کرتا‘ گزشتہ علمائے اہل مدینہ کو بڑی فضیلت حاصل ہے اور ان کے متفق علیہ فتووں پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ والحمد للہ رب العلمین‘ لا شریک لہ۔ ۔ ۔ یہ بات ضرور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بعد میں بہت سی باتوں میں اختلاف کیاہے‘ اگر آپ کو معلوم نہیں ہوتا تو میں آپ کو لکھتا ہوں۔ پھر اصحاب
[1] امام مالک رحمہ اللہ: ص۱۳۸۔ ۱۴۰