کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 268
علوم و فنون کے ماہرین سے مشاورت
علوم اسلامیہ کی عموماً دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں : ایک علوم عالیہ جو قرآن وسنت ہیں اور دوسرا علوم آلیہ یعنی وہ علوم جو قرآن وسنت کا معنی ومفہوم سمجھنے میں بطور ذریعہ استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ علم لغت‘ علم بلاغہ ‘ علم صرف و نحو وغیرہ۔ علوم اسلامیہ کی ایک اور اعتبار سے یوں تقسیم کی گئی ہے کہ پہلی قسم ان علوم کی ہے جو فقہ الأحکام سے متعلق ہوں یعنی قرآن وسنت اور دوسری قسم ان علوم پر مشتمل ہے جو فقہ الواقع سے تعلق رکھتے ہوں جیسا کہ عرف وغیرہ۔ آسان الفاظ میں اس تقسیم کویوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک تو معیشت کے بارے میں اسلامی تعلیمات ہیں یعنی کتاب البیوع وغیرہ کی احادیث اور دوسرا ان تعلیمات کا معاشرے میں مروج کاروبار کی مختلف صورتوں ‘ اسکیموں اور پراجیکٹس پر اطلا ق ہے اور اس اطلاق کالازمی تقاضا یہ ہے کہ علماء کاروبار کی ان جدید صورتوں اور ان کی جزئیات سے اچھی طرح واقف ہوں۔ مثال کے طور پر شیئرز کا کاروبار جائز ہے یا ناجائز‘ اس کے بارے میں شرعی حکم جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ایک عالم دین آدمی اسٹاک ایکسچینج کی صورت واقعہ سے بھی واقف ہو۔ پس اسی وجہ سے أئمہ أربعہ کے دور میں علماء کتاب و سنت کے ساتھ ساتھ معاصر تجارتی علو م کو بھی ان کے ماہرین سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس طرح ان علماء کے فتاوی میں ایک قسم کی اجتماعی کوشش شامل ہو جاتی تھی یعنی ماہرین فن‘ فقہ الواقع کا صحیح رخ پیش کرتے اور علماء اس پر شرعی حکم لگاتے تھے۔ مولانا محمد زاہد حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’اسی طرح امام محمد رحمہ اللہ کے بارے میں معرو ف ہے کہ وہ کاروباری عرف اور حالات معلوم کرنے کے لیے بازاروں کا چکر لگایا کرتے تھے۔ کیوں کہ امام صاحب کے ہاں صرف مسئلہ بتا دینا کافی نہیں سمجھا جاتا تھا‘ بلکہ اس بات کی بھی رعایت رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی کہ اس پر عمل کرنے کے اثرات و نتائج کیاہوں گے۔ اگر اس پر عملی مشکلات مرتب ہونے کا امکان ہوتاتوکوشش کی جاتی کہ کوئی ایسا حل تلاش کیا جائے جس سے اس مشکل کابھی ازالہ ہو سکے۔ ۔ ۔ فقیہ کا جس طرح مسئلہ شرعیہ سے واقف ہونا ضروری ہے‘ اسی طرح جس طرح کے حالات پر وہ مسئلہ لاگوہو رہاہے‘ اس سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ اسی وجہ سے بعض فقہائے حنفیہ نے لکھا ہے: من لم یکن عالما بأھل زمانہ فھوجاھل یعنی جو شخص اپنے اہل زمانہ کے حالات کو نہ جانتا ہو‘ وہ جاہل ہے۔ ‘‘[1]
باہمی خط و کتابت کے ذریعے تبادلہ خیال
اس دور میں بھی تابعین کے دور کی طرح فقہاء کے مابین خط و کتابت کے ذریعے ایک دوسرے کی آراء اور دلائل کو جانچنے کا کام جاری رہا۔ ذیل میں ہم اس وقت کے دو معروف أئمہ یعنی امام مالک رحمہ اللہ اور اما م لیث بن سعد ر رحمہ اللہ کے مابین بعض مسائل پر ہونے والی خط و کتابت کا تذکرہ فرما رہے ہیں۔ یہ خطوط اگرچہ طویل ہیں لیکن ان میں اس دور کے علمی مباحث‘ مناہج اجتہاد اور آداب اختلاف کے بارے میں ایک خزانہ پنہاں ہے لہذا ہم ان خطوط کے علمی نکات کو ممکن حد تک بیان کر رہے ہیں۔ پہلا خط امام مالک رحمہ اللہ کا ہے جو انہوں نے امام لیث بن سعد رحمہ اللہ کی طرف لکھا اور بعض مسائل میں اہل مدینہ کے فتوی کے برعکس رائے دینے پر امام لیث رحمہ اللہ کو تنبیہ کرتے ہوئے عمل اہل مدینہ کی حجیت کے دلائل کو واضح کیا۔ شیخ أبو زہرہ رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ کے اس خط کا تذکرہ کرتے ہوئے جو انہوں نے امام لیث بن سعد رحمہ اللہ کو لکھا‘ فرماتے ہیں :
’’من جانب مالک بن أنس بطرف اللیث بن سعد‘ السلام علیکم! میں خدائے تعالیٰ کی تعریف کرتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ أما بعد‘ اللہ ظاہر و باطن میں مجھے اور آپ کو اپنی اطاعت کی حفاظت میں رکھے اور ہمیں اور آپ کو برائی سے بچائے۔ خدا تم پر رحم کرے‘ معلوم ہوکہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم لوگوں کو مختلف اشیاء میں فتوے دیتے ہو‘ اور اس کے خلاف فتوے دیتے ہو جو مسلک ہم لوگوں کا ہے اور اہل مدینہ کا عمل جس پر ہے۔ تم امین ہو‘ تمہیں فضیلت حاصل ہے‘ تمہیں اپنے شہر میں بلند مقام حاصل ہے‘ بہت لوگ تمہارے ضرورت مند ہیں ‘ جو تم کہتے ہو اس پر لوگوں کو کامل اعتماد ہے‘ تمہارے لیے ضروری ہے کہ دل میں خوف ہو‘ اور صرف اس بات کی پیروی کروجس سے
[1] اجتماعی اجتہاد : تصور ‘ ارتقاء اور عملی صورتیں : ص۳۱