کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 267
اصحاب مالک رحمہ اللہ میں شمار کرتے تھے اور مذہب مالکی کے فقہاء میں شامل کرتے تھے۔ مؤطا امام مالک کے وہ حد درجہ ثنا خواں تھے۔ اس کی تحسین و حمایت میں وہ گرم تقریرکرتے تھے۔ فقہ اہل مدینہ کی ان کی نظر میں بڑی اہمیت تھی۔ وہ برابر اس کی مدافعت میں لگے رہتے اور اس کے پایہ بلند کی تحسین و توقیر کا اعتراف فرمایا کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ جب امام محمد رحمہ اللہ اپنی مجلس سے اٹھ جاتے تو شافعی رحمہ اللہ ان کے اصحا ب سے مناظرہ کیا کرتے اور فقہ حجاز کی مدافعت زور شور سے کرتے اور ا س کے طریق تفقہ میں رطب اللسان رہتے البتہ خود امام محمد رحمہ اللہ سے اس معاملہ میں انہوں نے کبھی مناظرہ نہیں کیا۔ اس لیے کہ استاذ معظم کی جلالت شان اور عزت و منزلت بہر حال مدنظر تھی۔ ‘‘[1]
شیخ أبو زہرہ رحمہ اللہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
’’جب امام محمد رحمہ اللہ کو یہ خبر ملی کہ وہ ان کے اصحاب سے ان کی عدم موجودگی میں مناظرہ کیا کرتے ہیں تو ایک روز انہیں بلایا اور مناظرہ کی دعوت دی لیکن شافعی رحمہ اللہ کے لیے اس دعوت کا قبول کرنامشکل تھا۔ انہیں استاذ سے مناظرہ کرتے شرم آئی۔ لہذ اانکار کر دیا۔ لیکن امام محمد رحمہ اللہ برابر اصرار کرتے رہے کہ مسائل میں بحث و گفتگو اور تبادلہ خیال میں حرج ہی کیا ہے۔ آخر بڑی ناگواری کے ساتھ انہوں نے بحث چھیڑی۔ یہ مسئلہ تھا ’’شاہد و یمین کا‘‘۔ اس معاملے میں شافعی رحمہ اللہ کا مسلک اور نقطہ نظر امام محمد رحمہ اللہ سے مختلف تھا۔ شافعی راویوں کا بیان ہے کہ غلبہ شافعی رحمہ اللہ کو حاصل ہوا۔ ‘‘[2]
امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ جن کا مزاج مناظرانہ نہ تھا‘ وہ بھی کئی ایک مسائل میں مناظرہ کرتے اور اپنے مخالف کو اس کی رائے سے رجو ع کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ قال محمد بن أبی حاتم: قدم رجاء الحافظ فصار إلی أبی عبد اللّٰہ فقال لأبی عبد اللّٰہ ما أعددت لقدومی حین بلغک؟ وفی أی شیء نظرت ؟فقال: ما أحدثت نظرا ولم أستعد لذلک فإن أحببت أن تسأل عن شیء فافعل فجعل یناظرہ فی أشیاء فبقی رجاء لا یدری أین ھو۔ ‘‘[3]
’’محمد بن أبی حاتم رحمہ اللہ نے کہا: رجاء الحافظ أبوعبد اللہ(امام أحمد رحمہ اللہ)کے پا س آئے اور ان سے کہنے لگے: جب آپ نے میرے آنے کی خبر سنی تو کیا تیاری کی یا کس چیز میں آپ نے غور و فکر کیا؟ امام أحمد رحمہ اللہ نے کہا: نہ تو میں نے کوئی غور و فکر کیا اور نہ کسی مسئلے پر تیاری کی ہے۔ ہاں ! اگر آپ کچھ پوچھناچاہتے ہیں تو مجھ سے ضرور پوچھیں۔ پس امام أحمد رحمہ اللہ نے بعض مسائل میں رجاء الحافظ رحمہ اللہ سے مناظرہ شروع کر دیا یہاں تک کہ رجاء رحمہ اللہ کی حالت یہ ہو گئی کہ انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں بیٹھے ہیں ؟(یعنی امام أحمد رحمہ اللہ کے علم سے حیران ہوتے ہوئے ان کے ہواس رخصت ہو گئے)۔ ‘‘
اسی طرح أبو نعیم أصبہانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ حدثنا الحسن بن سعید حدثنا زکریا الساجی حدثنا أبو العباس الساجی قال: سمعت أحمد بن حنبل ما لا أحصیہ فی المناظرۃ تجری بینی وبینہ وھو یقول: ھکذا قال أبو عبد اللّٰہ الشافعی۔ ‘‘[4]
’’ہمیں حسن بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں زکریا ساجی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں أبو العباس ساجی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا:میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے اپنے اور ان کے مابین ہونے والے مناظروں میں بہت کچھ سنا اور ان مناظروں میں وہ اکثر وبیشتر کہتے تھے : اسی طرح شافعی رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے۔ ‘‘
پس علمی مباحثہ و مکالمہ بھی اجتماعی رائے بنانے میں نافع ہے بشرطیکہ أذہان کسی متعین مذہبی یا گروہی تعصب سے آزاد ہوں۔
[1] آثار اما م شافعی رحمہ اللّٰہ : ص۶۷
[2] أیضاً:ص۶۷۔ ۶۸
[3] سیر أعلام النبلاء: ۱۲؍ ۴۱۳
[4] حلیۃ الأولیاء: ۹؍ ۹۹۔ ۱۰۰