کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 266
کے لیے احترام کا جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ شیخ محمد الخضری بک رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ اجتمع أبو حنیفۃ والأوزعی فی دار الحناطین بمکۃ فقال الأوزاعی لأبی حنیفۃ ما بالکم لا ترفعون أیدیکم عند الرکوع وعند الرفع منہ؟ فقال أبو حنیفۃ لأجل أنہ لم یصح عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیہ شیء‘ قال کیف وقد حدثنی الزھری عن سالم عن أبیہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ کان یرفع یدیہ إذا افتتح الصلاۃ وعند الرکوع وعند الرفع فقال أبو حنیفۃ حدثنا حماد عن إبراہیم عن علقمۃ والأسود عن ابن مسعود أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان لا یرفع یدیہ إلا عند افتتاح الصلاۃ ولا یعود إلی شیء من ذلک فقال الأوزاعی أحدثک عن الزھری عن سالم عن أبیہ وتقول حدثنی حماد عن إبراہیم؟ فقال أبوحنیفۃ کان حماد أفقہ من الزھری وکان إبراہیم أفقہ من سالم وعلقمۃ لیس بدون ابن عمر وإن کان لابن عمر صحبۃ أو لہ فضل صحبۃ فالأسود لہ فضل کثیر وعبد اللّٰہ ھو عبد اﷲ۔ ‘‘[1] ’’امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام اوزاعی رحمہ اللہ مکہ میں ’دار الحناطین‘ میں اکھٹے ہوئے تو امام اوزاعی رحمہ اللہ نے امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ سے کہا: تم لوگوں کا کیا معاملہ ہے کہ تم رکوع سے اٹھتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت رفع الیدین نہیں کرتے۔ امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: اس وجہ سے کہ اس بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ثابت نہیں ہے۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: رفع الیدین کیسے ثابت نہیں ہے جبکہ مجھے امام زہری رحمہ اللہ نے سالم رحمہ اللہ سے بیان کیا اور انہوں نے اپنے والد(حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ )سے بیان کیا اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت‘ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ امام أبوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: مجھے حماد رحمہ اللہ نے ابراہیم رحمہ اللہ سے‘ انہوں نے علقمہ رحمہ اللہ اور أسود رحمہ اللہ سے‘ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صرف نماز شروع کرتے وقت ہی رفع الیدین کیا کرتے تھے اور اس کے بعد کسی جگہ بھی رفع الیدین نہ کرتے۔ اس پر امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا میں آپ کو زہری رحمہ اللہ ‘سالم رحمہ اللہ اور ان کے والد(حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ )سے حدیث نقل کرتا ہوں جبکہ آپ مجھے کہتے ہیں : آپ کو حماد رحمہ اللہ نے ابراہیم رحمہ اللہ سے حدیث بیان کی(یعنی جنہوں نے آپ کو حدیث بیان کی ہے ان کا حدیث میں مقام ہی کیا ہے؟)۔ ا س پر امام أ بو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا:حماد رحمہ اللہ ‘ زہری رحمہ اللہ سے زیادہ اور ابراہیم رحمہ اللہ ‘ سالم رحمہ اللہ سے زیادہ فقیہ ہیں اور علقمہ رحمہ اللہ ‘ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کم نہیں ہے‘ اگرچہ ابن عمر رضی اللہ عنہ صحابی تھے یا ان کو بطور صحابی رضی اللہ عنہ فضیلت حاصل تھی۔ اسی طرح أسود رضی اللہ عنہ کے پاس بھی فضل کثیر تھا اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو پھر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔ ‘‘ اس روایت سے معلوم ہوا کہ امام اوزاعی رحمہ اللہ اپنی روایت کو راویوں کے أئمہ حدیث ہونے کی وجہ سے ترجیح دے رہے تھے جبکہ امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک کسی راوی کا فقیہ ہونا ‘ اس روایت کے راجح ہونے کا ایک قرینہ تھا۔ پس ہر ایک فقیہ اپنی روایات پر زیادہ اعتماد کرتا تھا۔ اسی طرح کے مناظرے امام شافعی رحمہ اللہ اور امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کے مابین بھی ہوئے۔ استاذ محمد علی السایس رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ وکانت لہ مناظرات مع محمد بن الحسن رفعت إلی رشید فسر منھا۔ ‘‘[2] ’’امام شافعی رحمہ اللہ کے بہت سے مناظرے جو امام محمد رحمہ اللہ کے ساتھ ہوئے تھے‘ ان کی روداد جب خلیفہ ہارون الرشید کو سنائی گئی تو وہ اسے سن کے بہت محظوظ ہوا۔ ‘‘ امام شافعی رحمہ اللہ جب تحصیل علم کے لیے امام محمد رحمہ اللہ کے پاس کوفہ آئے تو وہ اکثر و بیشتر ان کے شاگردوں سے بھی مناظرہ کرتے تھے۔ شیخ أبو زہرہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’شافعی رحمہ اللہ ‘ امام محمد رحمہ اللہ کے حلقہ فیض میں پابندی اور باقاعدگی سے شرکت کرتے اور مستفید ہوتے تھے لیکن بایں ہمہ اپنے آپ کو وہ
[1] تاریخ التشریع الإسلامی:ص۱۱۰ [2] تاریخ الفقہ الإسلامی:ص۱۰۴