کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 265
ایک اور جگہ امام شافعی رحمہ اللہ کے امام محمد رحمہ اللہ سے علمی استفادہ کے بارے میں شیخ لکھتے ہیں :
’’شافعی رحمہ اللہ نے امام محمد رحمہ اللہ کی بارگاہ فیض سے پورا پور ااستفادہ کیا۔ ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ ان کے نکات علمی نقل کیے اور پھر باقاعدہ انھیں مرتب کر ڈالا۔ چناچہ جہاں تک ان کی ذات گرامی کا تعلق ہے وہ خود بھی ممنونیت کے ساتھ اس کا اعتراف کرتے ہیں : میں نے امام محمد رحمہ اللہ سے جو کچھ پڑھا‘سنا‘ نقل کیا اور لیا‘ اس علم کی مقدار ایک بار شتر کے برابر ہے۔ ‘‘[1]
مثبت مکالموں اور مباحثوں کا اہتمام
افکار و آراء میں اجتماعیت کے حصول کے لیے بعض اوقات ثمر آور مکالمات کا انعقاد بھی ہوتا تھا۔ ان مناظروں میں اصل مقصود دوسرے کو نیچا دکھانا نہیں بلکہ دوسرے کی رائے اور اس کے دلائل کو اچھی طرح جانچنا اور پھر اپنی رائے سے اس کا تقابلی مطالعہ کرنا ہوتا تھا۔ استاذ محمد علی السایس رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ کان الاختلاف والجدل قدیمین بین العلماء۔ ۔ ۔ وکان جدلھم أحیاناً بالمشافھۃ فی حلقات الدروس وفی المنازل والمساجد ومواسم الحج وأحیاناً أخری بالمکاتبۃ حتی تأثر التألیف بالأسلوب الجدلی کما یظھر ذلک واضحاً فی کتاب الأم للشافعی وخلافہ۔ ‘‘[2]
’’علمی مسائل میں اختلاف رائے و مناظرہ کرنا علماء کے مابین شروع سے ہی چلا آ رہا ہے۔ ۔ ۔ علمائے سلف میں بعض اوقات یہ مناظرے حلقہ ہائے دروس یا گھروں یا مساجد یا موسم حج میں بالمشافہہ ملاقات کی صورت میں ہوتے تھے اور بعض حالات میں باہمی خط و کتابت کے ذریعے‘ یہاں تک کہ اس دور میں اسلوب تالیف میں مناظرانہ رنگ غالب آ گیا جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب’الأم‘میں یہ اسلوب بہت نمایاں ہے۔ ‘‘
اما م مالک رحمہ اللہ کے مناظروں کے بارے شیخ أبو زہرہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ہمیشہ موسم حج میں آپ علما ء سے ملتے تھے‘ ان سے مناظرے ہوتے تھے‘ ان سے علم حاصل کیا جاتا تھا‘ اور انھیں اپنا علم بتایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ جب علماء مدینہ شریف زیارت کے لیے آتے تو اس وقت ان سے ملاقات فرماتے تھے‘ وہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ملتے تھے‘ دونوں نے باہم خالص علمی مناظرہ کیے تھے جو تعصب سے بری تھے‘ چناچہ ایک نے کہا تھاکہ بیشک وہ فقیہ ہیں ‘ اوردوسرے نے بھی اسی قسم کا خیال ظاہر کیا تھا۔ آپ لیث بن سعد‘ اوزاعی‘ أبویوسف‘ محمد( رحمہم اللہ )اور دوسرے علماء سے بھی انھیں مقامات پر ملے تھے‘ آپ ان تمام مقابلوں میں علم دیتے تھے اور علم لیتے تھے۔ ‘‘[3]
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض اوقات اس قسم کے مناظروں میں دلائل کے بیان میں جذباتی عنصر بھی شامل ہو جاتا تھا لیکن اس کے باوجود بھی جب کسی امام کو دوسرے امام کی کوئی رائے یا اس کے دلائل وزنی معلوم ہوتے تو وہ اپنی رائے سے رجوع کر لیتے تھے۔ شیخ أبو زہرہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے آپ سے صاع کی مقدار پوچھی‘ آپ نے جواب دیا‘ پانچ رطل اور تین۔ أبویوسف رحمہ اللہ نے کہا: آپ نے یہ کہاں سے کہا؟ آپ نے اپنے بعض شاگردوں سے کہا: تمھارے پاس جو صاع ہیں وہ لے آؤ۔ اہل مدینہ اپنے صاع لے آئے‘ عام طور پریہ مہاجرین اور انصارکی اولاد تھے‘ ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں صاع تھا۔ اور وہ کہتا تھا یہ صاع ہے کہ ورثہ میں ملا ہے میرے والد سے میرے دادا سے جو صحابی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ پھر امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا‘ یہ بات عام اور مروج ہے ہمارے یہاں ‘ اور حدیث سے زیادہ ثابت ہے چناچہ ابویوسف رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کے قول کو اختیار کر لیا۔ ‘‘[4]
بعض اوقات ایک امام اپنے موقف سے رجوع تو نہ کرتاتھا لیکن اسے دوسرے کی رائے کی علمی بنیاد معلوم ہو جاتی تھی اوردوسرے کی رائے
[1] امام مالک رحمہ اللہ: ص۶۶
[2] تاریخ الفقہ الإسلامی:ص۸۳۔ ۸۴
[3] امام مالک رحمہ اللہ : ص۱۳۷
[4] أیضاً: ص۱۰۹