کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 264
اسفار اور ایک دوسرے سے استفادے کے پیچھے ایک تویہ جذبہ کارفرما تھا کہ ان فقہاء کے نقطہ ہائے نظر میں قربت پیدا ہواور یہ بھی کہ ان میں ہر ایک اپنی علمی کمی کو دوسرے کے علم سے مکمل کرے اور یہ بھی کہ ایک دوسرے سے علم حاصل کرنے کی وجہ سے ان کی تالیفات میں مشابہت پید اہو۔ ‘‘ اما م مالک رحمہ اللہ کی دوسرے علماء سے علمی مجالس کے بارے میں شیخ أبو زہرہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ ’’ہمیشہ موسم حج میں آپ علما ء سے ملتے تھے۔ ۔ ۔ ان سے علم حاصل کیا جاتا تھا‘ اور انھیں اپنا علم بتایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ جب علماء مدینہ شریف زیارت کے لیے آتے تو اس وقت ان سے ملاقات فرماتے تھے‘ وہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ملتے تھے۔ ۔ ۔ آپ لیث بن سعد‘ اوزاعی‘ أبویوسف‘ محمد( رحمہم اللہ )اور دوسرے علماء سے بھی انھیں مقامات پر ملے تھے۔ ‘‘[1] اس باہمی استفادے سے بعض اوقات کسی مسئلے میں ایک ایسی رائے سامنے آ جاتی تھی جو اہل الحدیث اور اہل الرائے کی متفقہ رائے بن جاتی تھی۔ استاذ محمد علی السایس رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ رحل أبو یوسف إلی مالک وأخذ عنہ بعد أن ناظرہ فی مسائل ثم رجع إلی العراق وقد أفاد إلی علمہ علم الحجازیین فکان أول من قرب بین المذھبین وأزال الوحدۃ بین العراقیین والحجازیین۔ ‘‘[2] ’’قاضی أبو یوسف رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کی طرف سفر کیا اور بعض مسائل میں ان سے مناظرہ کے بعد ان کی رائے کو اختیار کر لیا۔ پھر وہ عراق واپس آئے اور انہوں نے اہل حجاز کو امام مالک رحمہ اللہ کے علم سے فائدہ پہنچایا۔ پس قاضی أبو یوسف رحمہ اللہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اہل الحدیث اور اہل الرائے کے مذہب میں قربت پیداکی اور اہل عراق و اہل حجاز کے مابین وحدت کی راہیں ہموار کیں۔ ‘‘ اسی طرح امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کے سفر مدینہ کے بارے شیخ أبو زہرہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’خلافت مہدی کے ابتدائی ایام میں محمد بن الحسن‘ مالک رحمہ اللہ کے پاس تین سال تک رہے‘ اور محمد رحمہ اللہ عراقی فقہ کے راوی ہیں۔ اور آپ کو ابو حنیفہ رحمہ اللہ یا ان جیسے دوسرے عراقی اہل رائے کی فقہ جاننے کا شغف امام مالک رحمہ اللہ کے متعلق معلوم ہی ہو چکا ہے‘ لہٰذا امام مالک رحمہ اللہ نے یقیناًمحمد رحمہ اللہ کو جو کچھ فقہ ان کے پاس تھی اس کے حاصل کرنے کے لیے اور جو کچھ انھیں ان کے استاد أبو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کا علم اور عراق کے دوسرے قاضیوں اورفقیہوں کا علم تھا‘ اس کے حاصل کرنے کے لیے مخصوص کر لیا ہوگا۔ ‘‘[3] امام شافعی رحمہ اللہ کے اسفار علم کے بارے میں شیخ أبو زہرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’شافعی رحمہ اللہ کے طلب علم کا آغاز مکہ سے ہوا۔ یہاں جو سربرآوردہ فقہاء و محدثین تھے ان سے استفادے میں وہ مصروف و منہمک ہو گئے۔ ۔ ۔ اور ایسی منزلت حاصل کر لی کہ مسلم بن خالد زنگی نے انہیں فتوی دینے کی اجازت دے دی اور کہا: اے ابو عبد اللہ! تم فتوی دے سکتے ہو۔ ۔ ۔ بلاشبہ شافعی رحمہ اللہ نے فقہ و حدیث میں کمال حاصل کر لیا اور اس مرتبے پر پہنچ گئے کہ مسند افتاء پر بھی متمکن ہو گئے۔ لیکن ان کی ہمت عالی اس حد پر قانع نہ ہو سکی۔ ۔ ۔ چناچہ ان کے کانوں میں امام مدینہ مالک رحمہ اللہ کا نام پڑا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مالک کا شہرہ چار سو پھیلاہو اتھا۔ دور دور سے قطع منازل کرتے ہوئے لوگ ان کی خدمت میں آتے تھے اور کسب فیض کرتے تھے۔ آخر کار شافعی رحمہ اللہ نے کمر ہمت کسی اور مکہ سے یثرب روانہ ہو گئے۔ ۔ ۔ مالک رحمہ اللہ سے مؤطا کی روایت کرنے کے بعد بھی حصول فقہ کے لیے شافعی رحمہ اللہ ان کے دامن سے وابستہ رہے اور وہ مسائل حاصل کرتے رہے جن کے بارے میں اس امام جلیل نے فتاوی جاری کیے تھے۔ یہاں تک کہ ۱۷۹ھ میں امام مالک رحمہ اللہ انتقال ہو گیا۔ ۔ ۔ مالک رحمہ اللہ سے پورا پورا استفادہ کر چکنے کے بعد بھی انہوں نے حصول علم کے لیے بلاد اسلامیہ کا سلسلہ سفر جاری رکھا۔ ‘‘[4]
[1] امام مالک رحمہ اللہ: ص۱۳۷ [2] تاریخ الفقہ الإسلامی:ص۹۵ [3] امام مالک رحمہ اللہ : ص۱۳۷ [4] أیضاً: ص۵۱۔ ۵۴