کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 263
’’ والذی یعنینا بوجہ خاص أن نقول: إن ھذا العصر نجب فیہ ثلاثۃ عشر مجتھدا دونت مذاھبھم واعترف لھم جمھور الإسلامی بالإمامۃ والزعامۃ الفقھیۃ وأصبحوا ھم القدوۃ والقادۃ فسفیان بن عیینۃ بمکۃ ومالک بن أنس بالمدینۃ والحسن البصری بالبصرۃ وأبو حنیفۃ وسفیان الثوری بالکوفۃ والأوزاعی بالشام والشافعی واللیث بن سعد بمصر إسحاق بن راھویہ بنیسابور وأبو ثور وأحمد وداؤد الظاھری وابن جریر ببغداد ومن ھذہ المذاھب ما عمر إلی یومنا ھذا ومنھا ماقضی علیہ بالفناء۔ ۔ ۔ وأھم مراکز التشریع فی ھذا العصر: بغداد والکوفۃ والبصرۃ والمدینۃ ومکۃ ومصر ودمشق ومرو ونیسابور والقیروان وقرطبۃ۔ ‘‘[1]
’’جس بات کا ہم بطور خاص ذکر کرناچاہتے ہیں ‘ وہ یہ ہے کہ اس دور میں تقریباً تیرہ مجتہدین مطلق موجود تھے جنہوں نے اپنے مذاہب کو مدون کیا اور جمہور امت مسلمہ نے علم فقہ میں ان کی امامت و پیشوائی کا اعتراف کیاہے اور یہ علماء امت کے لیے ایک ماڈل اور پیشوابن گئے تھے۔ ان فقہاء میں سے سفیان بن عیینہ مکہ میں ‘ مالک بن أنس مدینہ میں ‘ حسن بصری بصرہ میں ‘ أبوحنیفہ اورسفیان ثوری کوفہ میں ‘ أوزاعی شام میں ‘ شافعی اور لیث بن سعد مصر میں ‘ اسحاق بن راہویہ نیشاپور میں ‘ أبو ثور‘ أحمد ‘ داؤد ظاہری اور ابن جریر رحمہم اللہ بغداد میں تھے۔ ان فقہی مذاہب میں کچھ ایسے بھی ہیں جو آج تک چلے آ رہے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو وقت کے ساتھ ناپید ہو چکے ہیں۔ ۔ ۔ اس عرصے میں اسلامی قانون سازی کے اہم مراکز بغداد‘کوفہ ‘ بصرہ‘ مدینہ ‘ مکہ‘ مصر‘ دمشق‘ مرو‘ نیشاپور‘ قیروان اور قرطبہ تھے۔ ‘‘
اس دور میں بھی اجتماعی اجتہاد کے تصورات میں کوئی قابل قدر پیش رفت نہیں ہوئی‘ بلکہ تابعین رحمہم اللہ کے دور میں اجتماعی اجتہاد کی جو صورتیں رائج تھیں ‘ تقریباً وہی تصورات و مناہج ہمیں اس دور میں بھی نظر آتے ہیں۔ ذیل میں ہم اس دور میں پائی جانے والی اجتماعی اجتہاد کی بعض صورتوں کو موضوع بحث بنا رہے ہیں۔
مختلف فقہی مکاتب فکر سے استفادہ
اس دور میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء نے ایک دوسرے سے استفادہ کرنے کے لیے بہت سفر کیے۔ اہل الحدیث نے تحصیل علم کے لیے کوفہ کا رخت سفر باندھا تو اہل کوفہ نے اہل مدینہ سے علم حاصل کیا۔ اس باہمی استفادے سے بعض اوقات فقہاء کے مختلف نقطہ ہائے نظر میں قربت پید اہوتی تھی۔ استاذ محمد علی السایس رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ وکان طبیعیاً أن یظھر فی کل إقلیم بعض الأحکام لا تظھر فی غیرہ تحت تاثیر العوامل الاجتماعیۃ والفوارق الإقلیمیۃ فشعر علماء کل جھۃ بالحاجۃ إلی تعرف ماعند الآخرین فکانت الرحلات العلمیۃ بین أعلام المشتغلین بالاجتھاد والفتوی من ذلک رحلۃ ربیعۃ الرأی إلی العراق ومحمد بن الحسن من العراق إلی المدینۃ والشافعی إلی المدینۃ ثم إلی العراق ثم إلی مصر وھکذا وقد کان من وراء تلک الرحلات وأخذ کل منھم عن الآخر أن تقاربت وجھات النظر بینھم وإن کمل کل منھم نقصہ بما عند الآخر وإن تشابھت تآلیفھم بواسطۃ ما استقاہ کل من علم غیرہ۔ ‘‘[2]
’’یہ ایک طبعی امر تھا کہ ہر علاقے میں اس خطے کے معاشرتی عوامل اور علاقائی امیتازات کی وجہ سے بعض ایسے مسائل ظہور پذیر ہوں ‘ جو دوسرے شہروں میں نہ پائے جاتے ہوں۔ پس ہرعلاقے کے علماء نے دوسرے علماء کے پاس جو علم تھا‘ اس کوجاننے کی ضرورت محسوس کی۔ پس وہ علماء جو فتوی و اجتہاد میں مشغول تھے ‘ انہوں نے علمی سفر کیے۔ اسی قسم کا سفر وہ بھی ہے جو ربیعہ رائی رضی اللہ عنہ نے(مدینہ سے)عراق کی طرف کیا یا محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ نے عراق سے مدینہ یا امام شافعی رحمہ اللہ نے(مکہ سے )مدینہ اور پھر عراق اور پھر مصر کا سفر کیا۔ ان علمی
[1] تاریخ الفقہ الإسلامی:ص۸۱۔ ۸۲
[2] أیضاً: ص۸۵