کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 262
’’میں یہ کہتاہوں : أبوسلمہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فقہ کی سوجھ بوجھ بھی حاصل کرتے تھے اور ان سے مناظرہ بھی کرتے تھے اور ان سے بحث بھی لگاتے تھے۔ ‘‘ ان دونوں حضرات کے ایک واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا محمد زاہد حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ایک دفعہ ایک معروف تابعی اور مدینہ کے فقہائے سبعہ میں سے ایک‘ أبوسلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اس عورت کی عدت کے بارے میں اختلاف ہو گیا جو حاملہ تھی اور اس حالت میں اس کے خاوند کا انتقال ہو گیا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس کی عدت’أبعد الأجلین‘(دو مدتوں میں سے جو زیادہ طویل ہو)ہے‘ یعنی چار مہینے دس دن کی مدت اور وضع حمل میں سے جو چیز بعد میں ہو ‘ اس پر اس کی عدت مکمل ہو گی۔ أبوسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب بھی بچے کی ولادت ہو جائے ‘ اس کی عدت پوری ہو جائے گی۔ دونوں اپنی اپنی دلیل بھی پیش کر رہے تھے۔ اتنے میں حضرت أبوہریرۃ رضی اللہ عنہ آ گئے۔ انہوں نے کہا: میری رائے بھی أبو سلمہ رحمہ اللہ والی ہے۔ آخر کار طے ہواکہ حضرت أم سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا جائے‘ شاید ان کے پاس اس مسئلے میں کوئی حدیث ہو۔ أم سلمہ رضی اللہ عنہا نےسبیعۃ أسلمیۃ کا واقعہ سنایاکہ ان کے خاوند کے انتقال سے چند روز بعد ہی ان کے ہاں بچے کی ولادت ہو گئی تھی اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوسری جگہ نکاح کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ أم سلمہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے أبو سلمہ رضی اللہ عنہ والی رائے کی تائید ہو گئی اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کو رجوع کرنا پڑا۔ ‘‘[1] امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی ایک روایت میں اس واقعے کو نقل کیا ہے۔ [2] اسی طرح حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ اور ربیعہ رائی رضی اللہ عنہ کے مابین ایک دلچسپ مناظرے کا تذکرہ بھی ہمیں کتابوں میں ملتاہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں : ’’ وحدثنی یحی عن مالک عن ربیعۃ بن أبی عبد الرحمن أنہ قال سألت سعید بن المسیب کم فی إصبع المرأۃ فقال عشر من الإبل فقلت کم فی إصبعین قال عشرون من الإبل فقلت کم فی ثلاث فقال ثلاثون من الإبل فقلت کم فی أربع قال عشرون من الإبل فقلت حین عظم جرحھا واشتدت مصیبتھا نقص عقلھا فقال سعید أعراقی أنت فقلت بل عالم متثبت أو جاھل متعلم فقال سعید ھی السنۃ یا ابن أخی۔ ‘‘[3] ’’ہمیں یحی نے مالک سے‘ انہوں نے ربیعہ بن أبی عبد الرحمن سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ عورت کی ایک انگلی میں کتنی دیت ہے توانہوں نے کہا: دس اونٹ‘ میں نے پھر سوال کیا: دو انگلیوں میں کتنی دیت ہو گی تو انہوں نے کہا: بیس اونٹ‘ میں نے پھر سوال کیا: تین انگلیوں میں کتنی ہو گی تو انہوں نے کہا: تیس اونٹ‘ میں نے پھر سوال کیا: چار انگلیوں میں کتنی ہو گی تو انہوں نے کہا: بیس اونٹ‘ میں نے کہا: جب عورت کازخم بڑھ گیا اور تکلیف زیادہ ہوگئی تو اس کی دیت کم ہو گئی۔ اس پر سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے کہا: کیا توعراقی ہے؟تو میں نے کہا: میں یا تو ایک ایسا عالم ہوں جو تحقیق کرناچاہتاہے یا ایک ایسا جاہل ہوں جو علم کا طلب گار ہے۔ اس پر سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے کہا: یہ سنت ہے میرے بھتیجے !۔ ‘‘ أئمہ أربعہ کے دور میں اجتماعی اجتہاد تابعین رحمہم اللہ سے استفادہ کرنے والے تبع تابعین اور أئمہ سلف بہت زیادہ تھے۔ ان میں سے بعض ایسے بھی تھے جو اجتہاد مطلق کے درجے کو پہنچے اور انہوں نے مستقل فقہی مکاتب فکر کی بنیاد رکھی۔ عامۃ الناس میں ان کے فتاوی کو قبول عام حاصل ہوا اور لوگوں نے ان کو أئمہ متبعین کا درجہ دیا۔ أستاذ محمد علی السایس رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
[1] اجتماعی اجتہاد: تصور ‘ ارتقاء اور عملی صورتیں : ص۱۶۔ ۱۷ [2] مؤطا امام مالک‘ کتاب الطلاق‘ باب عدۃ المتوفی عنھا زوجھا اذا کانت حاملا (۱۲۲۵)‘ ۲؍ ۵۸۹۔ [3] مؤطا إمام مالک‘ کتاب العقول‘ باب ما جاء فی عقل الأصابع۔ ۲؍ ۸۶۰