کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 261
فرماتے ہیں : ’’ أخبرنا أبو بکر بن الحارث الفقیہ أنبأ علی بن عمر الحافظ ثنا یعقوب بن ابراہیم البزار ثنا الحسن بن عرفۃ ثنا اسمعیل ابن علیۃ عن ابن عون عن عیسی بن الحارث قال کانت أم ولد لأخی شریح بن الحارث ولدت لہ جاریۃ فزوجت فولدت غلاماً ثم توفیت أم الولد قال فاختصم فی میراثھا شریح بن الحارث وابن ابنتھا إلی شریح فجعل شریح ابن الحارث یقول لشریح إنہ لیس لہ میراث فی کتاب اللّٰہ إنما ھو ابن بنتھا فقضی شریح بمیراثھا لابن بنتھا ﴿وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہ﴾ فرکب مسیرۃ بن یزید إلی ابن زبیر فأخبرہ الذی کان من شریح فکتب ابن الزبیر إلی شریح أن میسرۃ بن یزید ذکر لی کذا وکذا وإنک قلت عند ذلک ﴿ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ ﴾ إنما کانت تلک الآیۃ فی شأن العصبۃ کان الرجل یعاقد الرجل فیقول ترثنی وارثک فلما نزلت ترک ذلک قال فجاء مسیرۃ بن یزید الکتاب إلی شریح فلما قرأہ أبی أن یرد قضاء ہ وقال إنما اعتقھا حیتان بطنھا۔ ‘‘[1] ’’ہمیں أبوبکر بن حارث نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں علی بن عمر الحافظ نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں یعقوب بن ابراہیم بزار نے بتایا‘ انہوں نے کہا‘ہمیں حسن بن عرفہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں ابن علیہ نے ابن عون سے اور انہوں نے عیسی بن حارث سے نقل کیاہے کہ انہوں نے کہا: میرے بھائی شریح بن حارث رحمہ اللہ کی ایک أم ولد(وہ لونڈی جس سے اس کے مالک کی کوئی اولاد ہو)تھی جس کے ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ پس اس لڑکی کی شادی ہوئی اور اس کے ہاں بھی ایک لڑکا پید اہوا۔ پھر وہ أم الولد(لونڈی)فوت ہو گئی۔ راوی کہتے ہیں اس أم الولد کی میراث میں شریح بن حارث رحمہ اللہ اور اس لونڈی کے نواسے میں جھگڑا ہوا تو وہ اپنا مقدمہ قاضی شریح رحمہ اللہ کے پاس لے کر آئے۔ پس شریح بن حارث‘ قاضی شریح رحمہ اللہ سے کہنے لگے : اس لڑکے کے لیے کتاب اللہ میں کوئی حصہ نہیں ہے یہ تو اس کا نواسہ ہے۔ پس قاضی شریح رحمہ اللہ نے(دونوں کی بات سن کر)نواسے کے حق میں میراث کا فیصلہ دے دیا۔ اور یہ آیت بطور دلیل پیش کی:’’اور رحمی رشتہ دار وں میں سے بعض اللہ کی کتاب میں (وراثت کے اعتبار سے)بعض کے زیادہ قریب ہوتے ہیں ‘‘۔ پس مسیرۃ بن یزید اس فیصلے کے بعد حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پا س آئے اور انہیں قاضی شریح رحمہ اللہ کے فیصلے کی خبر دی۔ پس حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے قاضی شریح رحمہ اللہ کو ایک خط لکھا‘ جس میں انہوں نے کہا کہ مسیرۃ بن یزید نے مجھے اس طرح بیان کیاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فیصلے کے وقت اس آیت’’اور رحمی رشتہ دار وں میں سے بعض اللہ کی کتاب میں (وراثت کے اعتبار سے)بعض کے زیادہ قریب ہوتے ہیں ‘‘ کو بطور دلیل بیان کیا ہے‘ جبکہ یہ آیت مبارکہ تو عصبات(میت کے باپ کی طرف سے رشتہ دار)کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ایک آدمی دوسرے آدمی سے یہ معاہدہ لیتا تھا کہ تو مجھے اپنا وارث بنائے گا۔ پس جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ کام چھوڑ دیا۔ روای کہتے ہیں کہ مسیرۃ بن یزید وہ خط لے کر قاضی شریح رحمہ اللہ کے پاس آئے۔ قاضی شریح رحمہ اللہ نے وہ خط پڑھا لیکن اپنا فیصلہ واپس لینے سے انکار کر دیا اور فرمایا: اس عورت کو اس کے پیٹ کی مچھلیوں (یعنی حمل)نے آزاد کر دیا تھا۔ ‘‘ فقہاء کے باہمی مباحثے فقہاء کے مابین مفید علمی مباحثے و مکالمے بھی اس دور کے علمی حلقوں میں ایک لازمی عنصر کے طور پر شامل رہے ہیں۔ یہ مباحثے بھی بعض اوقات کسی مسئلے میں ایک اجتماعی رائے کی بنیاد بن جاتے تھے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ قلت: کان أبو سلمۃ یتفقہ ویناظر ابن عباس ویراجعہ۔ ‘‘[2]
[1] السنن الکبری للبیھقی‘ کتاب آداب القاضی‘ باب من اجتھد من الحکام ثم تغیر اجتھادہ (۲۰۱۶۵)‘ ۱۰؍ ۱۲۱۔ [2] تذکرۃ الحفاظ:ا؍ ۵۱