کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 260
انہوں نے کہا‘ أبو عبد الرحمن عبد اللہ بن مبارک نے یہ کہتے ہوئے خبر دی: فقہائے اہل مدینہ کہ جو اپنی فقہی آراء کا اظہار کرتے تھے‘ سات تھے۔ اور وہ سعید بن مسیب‘ سلیمان بن یسار‘ سالم بن عبداللہ‘ قاسم بن محمد‘ عروہ بن زبیر‘ عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ اور خارجہ بن زید رحمہم اللہ تھے۔ جب ان لوگوں کے پاس کوئی مسئلہ آتاتھاتو وہ اس میں مل جل کر غور کرتے اور کوئی بھی قاضی کسی نئے مسئلے میں اس وقت تک فیصلہ نہیں کرتا تھا جب تک کہ وہ ان کی مجلس میں اس مسئلے کو پیش نہ کر لیتا تھا۔ ‘‘ قاضیوں کے مشاورتی فیصلے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اپنے زمانہ خلافت میں قضاۃ کو اس بات کاپابند بناتے تھے کہ جو مسائل قرآن وسنت میں صریحاً مذکور نہ ہوں ‘ان کا حل علماء سے مشاورت کے ذریعے طے کریں۔ ابن خلف الوکیع رحمہ اللہ متوفی ۳۰۶ھ فرماتے ہیں۔ ’’ أخبرنی الحسن بن أبی الفضل المقری قال حدثنا محمد بن حمید قال حدثنا الحکم بن بشیر بن سلیمان عن عمر بن قیس قال کتب عمر بن عبد العزیز إلی عدی بن أرطاۃ أما بعد فإن رأس القضاۃ اتباع ما فی کتاب اللّٰہ ثم القضاء بسنۃ رسول اللّٰہ ثم حکم الأئمۃ الھداۃ ثم استشارۃ ذوی الرأی والعلم وألا تؤثر أحدا علی أحد۔ ‘‘[1] ’’مجھے حسن بن أبی الفضل مقری نے بیان کیاہے‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں محمد بن حمید نے بیان کیاہے‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں حکم بن بشیربن سلمان نے عمر بن قیس سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا:حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے عدی بن أرطاۃ(أمیر بصرہ)کی طرف ایک خط لکھا(جس کا مضمون کچھ اس طرح سے تھا)۔ أما بعد‘ بے شک!قضاۃکی بنیاد یہ ہے کہ وہ دوران فیصلہ اس کی اتباع کریں جو کتاب اللہ میں ہے‘(اگر کتاب اللہ میں نہ ہو تو)پھر سنت رسول کے مطابق فیصلہ کریں ‘(اگر اس میں بھی نہ ہو تو)ہدایت یافتہ أئمہ کے فیصلوں کو اختیار کر لو(اگر ان میں بھی کسی مسئلے کا حل نہ ملے تو)صاحب رائے اہل علم سے مشورہ کرو اور ان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دو۔ ‘‘ حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ ہر علاقے کے فقہاء کی اجماعی آراء کوبہت اہمیت دیتے تھے۔ ایک روایت کے الفا ظ ہیں : ’’ أخبرنا یزید بن ھارون عن حماد بن سلمۃ عن حمید قال قیل لعمر بن عبد العزیز لو جمعت الناس علی شیء فقال: ما یسرنی أنھم لم یختلفوا قال: ثم کتب إلی الآفاق وإلی الأمصار لیقض کل قوم بما اجتمع علیہ فقھاؤھم۔ ‘‘[2] ’’ہمیں یزید بن ہارون نے حماد بن سلمہ سے‘ انہوں نے حمید سے خبردی ہے کہ انہوں نے کہا: عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ سے کہا گیا: کاش کہ آپ تمام لوگوں کو ایک ہی فقہ پر جمع کر دیں تو انہوں نے کہا: مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ لوگ اختلاف نہ کریں۔ راوی کہتے ہیں : پھر حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ نے تمام اطراف و جوانب اور شہروں میں ایک خط بھیجا کہ ہر علاقے کے لوگ اس کے مطابق فیصلہ کریں کہ جس پر ان کے فقہاء کا اتفاق ہو۔ ‘‘ شیخ حسین سلیم أسد نے اس روایت کی سند کو’صحیح‘ قرار دیا ہے۔ [3] فقہاء کی بذریعہ خط و کتابت مشاورت اس دور میں فقہاء کرام کے مابین خط و کتابت بھی ہوتی تھی‘ جس سے ایک فقیہ کو دوسرے علماء کی فقہی آراء اور ان کے دلائل کو جاننے کا موقع ملتا تھا۔ ایسی باہمی مشاورت بھی بعض اوقات کسی مسئلے میں د ویا دو سے زائد فقہاء کی اجتماعی رائے کا سبب بن جاتی تھی۔ امام بیہقی رحمہ اللہ
[1] أخبار القضاۃ:۱؍ ۷۷ [2] سنن الدارمی‘ باب اختلاف الفقھاء (۶۲۸)‘ ۱؍ ۱۵۹۔ [3] أیضاً