کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 259
تھیں ‘وہ تعداد میں بہت ہی کم تھیں۔ پس ان حالات میں رائے و قیاس کے استعمال سے ان کے لیے کوئی مفر(چھٹکارا)نہیں تھا۔ ‘‘
دور تابعین رحمہم اللہ میں اجتماعی اجتہاد کی صورتیں
مذکورہ بالا اسباب کے باوجود اجتماعی اجتہاد کی فکر مکمل طور پر ختم نہ ہوئی تھی بلکہ اس کی بعض علاقائی صورتیں یا افکار کسی نہ کسی صورت میں اس دور میں نمایاں ہوتے رہے ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں :
’’ أبوبکر قال حدثنا ابن إدریس عن أشعث عن الشعبی قال: إذا اختلف الناس فی شیء فانظر کیف صنع فیہ عمر فإنہ کان لا یصنع شیئا حتی یسأل ویشاور۔ ‘‘[1]
’’أبوبکر کہتے ہیں ہمیں ابن ادریس نے أشعث سے‘ انہوں نے شعبی سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا: جب لوگ کسی مسئلے میں اختلاف کریں تو یہ دیکھو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس میں کیا کیا ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوئی کام بھی اس وقت تک نہیں کرتے تھے جب تک کہ اس بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ نہ کر لیتے تھے۔ ‘‘
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں :
’’ وفیما أجاز لی أبو عبد اللّٰہ الحافظ روایتہ عنہ عن أبی العباس عن الربیع عن الشافعی قال: قال الحسن البصری إن کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لغنیاً عن المشاورۃ ولکنہ أراد أن یستن بذلک الأحکام بعدہ واﷲأعلم۔ ‘‘[2]
’’اور ان میں سے کہ جن کی أبو عبد اللہ الحافظ نے مجھے روایت کی اجازت دی ہے‘ ان کی وہ روایت بھی ہے کہ جو انہوں نے أبو العباس سے‘ انہوں نے ربیع سے اور انہوں نے شافعی رحمہ اللہ سے نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا: حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا:اگرچہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشورہ سے مستغنی تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ اس لیے کیاتھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اپنے بعد آنے والے لوگوں میں شرعی احکام کو معلوم کرنے کے لیے ایک سنت کے طور پر جاری کرنا چاہتے تھے۔ ‘‘
ذیل میں ہم اس دور میں اجتماعی اجتہاد کی کوششوں اور منہج کا چند تاریخی آثار کی روشنی میں ایک اجمالی جائز ہ پیش کر ہے ہیں :
فقہائے سبعہ کی مجلس مشاورت
دور تابعین رحمہم اللہ میں مدینہ میں سات فقہاء تھے جو فقہائے سبعہ کے نام سے معروف تھے۔ ان فقہاء کی باہمی علمی مجالس بھی منعقد ہوتی تھیں۔ معروف مؤرخ ابن عساکر متوفی ۵۷۱ھ لکھتے ہیں :
’’ أخبرنا أبو القاسم إسماعیل بن أحمد أنا محمد بن وھبۃ أنا محمد بن الحسین أنا عبد اللّٰہ بن جعفر ثنا یعقوب نا علی بن الحسن العسقلانی نا أبوعبد الرحمن عبد اللّٰہ بن المبارک قال کان فقھاء أھل المدینۃ الذین کانوا یصدرون عن رأیھم سبعۃ سعید بن المسیب وسلیمان بن یسار وسالم بن عبد اللّٰہ والقاسم بن محمد وعروۃ بن الزبیر وعبید اللّٰہ بن عبد اللّٰہ بن عتبۃ وخارجۃ بن زید وکانوا إذا جاء تھم المسئلۃ دخلوا فیہ جمیعاً فنظروا فیھا ولا یقضی القاضی حتی یرفع إلیھم فینظرون۔ ‘‘[3]
’’ہمیں أبو القاسم اسمعیل بن أحمد نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں محمدبن وہبہ نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں محمد بن حسین نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں عبد اللہ بن جعفر نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں یعقوب نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ علی بن حسن عسقلانی نے خبر دی‘
[1] مصنف ابن أبی شیبۃ‘ کتاب الأدب‘ باب فی المشورۃ من أمر بھا (۲۶۲۷۴)‘ ۵؍ ۲۹۸۔
[2] السنن الکبری للبیھقی‘ کتاب النکاح‘ جماع أبواب ما خص بہ رسول اﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘ باب ما أمرہ اﷲ بہ من المشورۃ (۱۳۰۸۳)‘ ۷؍ ۴۶۔
[3] تاریخ دمشق‘ باب حرف السین‘ فصل سالم بن عبد اﷲ بن عمر بن خطاب۔ ۲۰؍ ۵۷