کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 258
ربیعہ بن أبی عبد الرحمن فروخ(متوفی ۱۳۶ھ)فقہائے اہل مدینہ میں سے تھے۔ انہوں نے اہل عراق سے بھی فقہ کی تعلیم حاصل کی اور ان کے مزاج میں روایت کی نسبت ‘رائے کا پہلو غالب تھا۔ اسی وجہ سے اہل زمانہ میں ربیعہ رائی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کا ایک واقعہ بعض مؤرخین اور محدثین نے نقل کیا ہے‘ جس سے اس زمانے میں اہل الحدیث اور اہل الرائے کے منہجی اختلاف کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں :
’’ وحدثنی یحی عن مالک عن ربیعۃ بن أبی عبد الرحمن أنہ قال سألت سعید بن المسیب کم فی إصبع المرأۃ فقال عشر من الإبل فقلت کم فی إصبعین قال عشرون من الإبل فقلت کم فی ثلاث فقال ثلاثون من الإبل فقلت کم فی أربع قال عشرون من الإبل فقلت حین عظم جرحھا واشتدت مصیبتھا نقص عقلھا فقال سعید أعراقی أنت فقلت بل عالم متثبت أو جاھل متعلم فقال سعید ھی السنۃ یا ابن أخی۔ ‘‘[1]
’’ہمیں یحی نے مالک سے‘ انہوں نے ربیعہ بن أبی عبد الرحمن سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ عورت کی ایک انگلی میں کتنی دیت ہے توانہوں نے کہا: دس اونٹ‘ میں نے پھر سوال کیا: دو انگلیوں میں کتنی دیت ہو گی تو انہوں نے کہا: بیس اونٹ‘ میں نے پھر سوال کیا: تین انگلیوں میں کتنی ہو گی تو انہوں نے کہا: تیس اونٹ‘ میں نے پھر سوال کیا: چار انگلیوں میں کتنی ہو گی تو انہوں نے کہا: بیس اونٹ‘ میں نے کہا: جب عورت کازخم بڑھ گیا اور تکلیف زیادہ ہوگئی تو اس کی دیت کم ہو گئی۔ اس پر سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے کہا: کیا توعراقی ہے؟تو میں نے کہا: میں یا تو ایک ایسا عالم ہوں جو تحقیق کرنا چاہتاہے یا ایک ایسا جاہل ہوں جو علم کا طلب گار ہے۔ اس پر سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے کہا: یہ سنت ہے میرے بھتیجے !۔ ‘‘
اہل الرائے کا حدیث کے بالمقابل رائے کو ترجیح دینا‘ اس وجہ سے بھی تھا کہ کوفہ ا س دور میں وضع حدیث کا مرکز تھا۔ خوارج و شیعہ کا فتنہ اسی شہر سے اٹھاتھا اور ان دونوں فرقوں نے اپنے مذاہب و افکار کی تائید میں احادیث وضع کی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ عراق کے فقہائے اہل سنت نے حدیث کے قبولیت کے ایسے سخت معیارات مقرر کیے کہ جن پر بہت کم احادیث پوری اترتی تھیں۔ اتنے سخت معیارات مقرر کرنا اس دور و حالات کی ایک مجبوری بھی تھی کیونکہ احادیث نقل توہو رہی تھیں لیکن ان کی تحقیق کا کام ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ لہذا صحیح‘ ضعیف اور موضوع روایات آپس میں خلط ملط تھیں۔ اہل حجاز چونکہ اس فن کے متخصصین تھے اور انہیں عراق جیسے حالات بھی درپیش نہ تھے‘ لہذا نہوں نے اپنے مذہب کی بنیاد احادیث و آثار پر رکھی۔ جبکہ اہل عراق نے اپنے خارجی ماحول کے اثرات کے تحت احادیث و آثار کی قبولیت میں شدت احتیاط کو اختیار کیا اور قیاس و رائے کو اپنے مذہب کی بنیاد بنایا۔ أستاذ محمد علی السایس رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ ولأن العراق منبع الشیعۃ و مقر الخوارج ودار الفتنۃ وقد شاع فیھا الوضع والکذب علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اشترط علماؤھا فی قبول الحدیث شروطاً لا یسلم معھا إلا القلیل فإذا ضممت ھذا إلی أنھم بمروی نزلاء العراق من الصحابۃ علمت أن کان ما عندھم من الأحادیث التی یعول علیھا فی نظرھم قلیل فلا مندوحۃ لھم حینئذ من استعمال الرأی۔ ‘‘[2]
’’چونکہ عراق کو شیعہ و خوارج کے مستقر ومقام اور فتنے کے گھر کی حیثیت حاصل رہی ہے لہذا اس علاقے میں وضع حدیث اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بہت زیادہ پھیل گیا تھا۔ پس عراقی علمائے اہل سنت نے حدیث کی قبولیت کے لیے ایسی شرائط مقرر کی کہ جن پر بہت تھوڑی روایات پوری اترتی تھیں۔ اس کے ساتھ جب آپ یہ بات بھی ملا لیتے ہیں کہ ان کے پاس صرف وہی احادیث تھیں جو عراق میں سکونت اختیار کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ان کو پہنچی تھیں تو آپ اس نتیجے تک خود ہی پہنچ جائیں گے کہ جو احادیث ان کے ہاں قابل اعتماد
[1] مؤطا إمام مالک‘ کتاب العقول‘ باب ما جاء فی عقل الأصابع۔ ۲؍ ۸۶۰
[2] تاریخ الفقہ الإسلامی:ص۷۴