کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 257
بن عمر‘ حضرت زید بن ثابت‘ حضرت أبوہریرۃ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے خلافت سے پہلے کے فتاوی کو بھی جمع کیا۔ انہوں نے مدینہ کے قاضیوں کے فیصلے جمع بھی کیے اور ان میں سے اکثر کو یاد بھی کیا۔ اور ان کی رائے یہ تھی کہ اس سب کچھ کے بعد وہ رائے کے استعمال سے مستغنی تھے۔ ‘‘
جبکہ دوسری طرف اہل الرائے کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’وکانت طائفۃ أخری۔ ۔ ۔ وأولئک أھل العراق وعلی رأسھم إبراہیم النخعی کان ھذا الفریق من الفقہاء یری أن أحکام الشرع معقولۃ المعنی مشتملۃ علی مصالح راجعۃ إلی العباد وأنھا بنیت علی أصول محکمۃ وعلل ضابطۃ لتلک الحکم فکانوا یبحثون عن تلک العلل والحکم التی شرعت الأحکام لأجلھا ویجعلون الحکم دائرا معھا وجودا وعدماً وربما رددوا بعض الأحادیث لمخالفتھا لھذہ العلل ولا سیما إذا وجد وا لھا معارضاً أما الفریق الأول فکان یبحث عن النصوص أکثر من بحثہ عن العلل إلا فیما لم یجد فیہ أثرا۔ ‘‘[1]
’’دوسری طرف ایک اور گروہ تھا۔ ۔ ۔ اور یہ اہل عراق تھے‘ جن کے رہنما ابراہیم نخعی رحمہ اللہ تھے۔ فقہاء کے اس گروہ کی رائے یہ تھی کہ شرعی احکام معقول المعنی اور ایسی مصالح پر مشتمل ہوتے ہیں جو بندوں کی طرف لوٹتی ہیں اور ان احکام کی بنیاد محکم اصولوں اورمنضبط علل پر رکھی گئی ہے۔ پس یہ علماء ان علل کو تلاش کرتے تھے اوران حکمتوں کا کھوج لگاتے تھے جن کے لیے یہ احکامات دیے گئے ہیں۔ یہ علماء ان علل و حِکَم کے ساتھ حکم شرعی کے وجود و عدم وجود کو مربوط کرتے تھے۔ بعض اوقات یہ علماء ان احادیث کا بھی ردکر دیتے تھے جو ان علل کے خلاف ہوتی تھیں ‘ خاص طور پر جبکہ وہ احادیث ان علل و حِکَم کے مخالف بھی ہوں۔ جبکہ اہل الحدیث علل کی تلاش کی بجائے نصوص(احادیث و آثار)کو تلاش کرتے تھے إلا یہ کہ کسی مسئلے میں بالکل ہی کوئی نص موجود نہ ہو۔ ‘‘
وقت کے ساتھ ساتھ اہل الحدیث اور اہل الرائے کا یہ اختلاف بڑھتا ہی گیااوراس نے مناظرانہ و مجادلانہ صورت اختیار کر لی۔ اہل الحدیث‘ حجاز کے علاقے میں چھائے ہوئے تھے جبکہ اہل الرائے کو عراق میں علمی غلبہ حاصل تھا۔ ڈاکٹر تاج عروسی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ فبدأت العراق تنافس المدینۃ علی زعامۃ الفقہ وحصلت مناظرات بین العراقیین والحجازیین أی(الکوفیین والمدنیین)واستمر ذلک إلی أواخر أیام بنی أمیۃ و وصل الأمر بینھم فی بعض الأحیان إلی تبادل التھم وکانت أقواھا من قبل الحجازیین حیت اتھموا العراقیین بالزندقۃ و وضع الحدیث وکانوا یقولون یخرج الحدیث من عندنا شبرا فیعود فی العراق ذراعاً وقالوا لا نأخذ بحدیث العراقیین إذا لم یکن لہ أصلاًعندنا۔ ۔ ۔ فرمی الحجازیون العراقیین بنبذ السنۃ واتباع الرأی کما رمی العراقیون الحجازیین بالجمود وعدم استعمال الرأی۔ ‘‘[2]
’’پس اہل عراق میں علم فقہ کی امامت کے حوالے سے اہل مدینہ سے مقابلہ کی فضا پیدا ہو گئی اوراہل کوفہ و اہل مدینہ کے مابین مناظرے شروع ہوگئے۔ یہ صورت حال بنو أمیہ کے آخری ایام تک جاری رہی اور بعض اوقات تو یہ مناظرے ایک دوسرے پر الزامات تک بھی پہنچ جاتے تھے۔ اہل حجاز کی طرف سے سب سے قوی اعتراض اہل کوفہ پر یہ تھا کہ انہوں نے اہل عراق کو زندیقیت اور وضع حدیث جیسے الزامات سے متہم کیا اور وہ یہ کہتے تھے ہمارے(یعنی اہل مدینہ کے)پاس سے ایک بالشت برابرحدیث نکلتی ہے اور عراق میں جا کر وہ ایک بازو کے برابر ہو جاتی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے تھے ہم عراقیوں کی روایت اس وقت تک قبول نہ کریں گے جب تک کہ ہمارے پاس اس کی اصل موجود نہ ہو۔ ۔ ۔ اسی طرح اہل حجاز نے اہل عراق پر سنت کو ترک کرنے اور رائے کے پیچھے پڑ جانے کا الزام بھی لگایاجیسا کہ اہل عرا ق نے اہل حجاز کو جمود اور رائے و قیاس کے عدم استعمال کا طعنہ دیا۔ ‘‘
[1] تاریخ الفقہ الإسلامی:ص۷۴
[2] الفقہ الإسلامی فی میزان التاریخ: ص۱۱۹