کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 256
اجتماعی مشاورت کا ماحول یا ذرائع موجود نہ ہوتے تو پھر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم انفرادی اجتہاد کے منہج کو اختیار کرتے اور بعض توقف کے رویے کو ترجیح دیتے تھے۔ اس اختلاف کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ فقہائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مختلف مزاجوں کے حامل تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے یہی مختلف فقہی مزاج ان کے شاگرد تابعین رحمہم اللہ میں بھی لاشعوری طور پر نفوذ پذیر ہوگئے تھے۔ استاذ محمد علی السایس رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ قد علمت أن الاجتھاد فی زمن الصحابۃ کان یدور علی البحث عن أحکام ما یعرض من المسائل فی الکتاب ثم فی السنۃ ثم إعمال الرأی إن لم یوجد فی المسألۃ نص من کتاب أو سنۃ وأن المفتین فی ذلک العصر کانوا طرائق قددا فمنھم من یتوسع فی الرأی ویتعرف المصالح فیبنی الحکم علیھا کعمر وعبد اللّٰہ بن مسعود ومنھم من کان یحملہ التورع والاحتیاط علی الوقف عند النصوص والتمسک بالآثار کالعباس والزبیر وعبد اللّٰہ بن عمر بن الخطاب وعبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص فلما تفرق الصحابۃ فی الأمصار قضاۃ ومفتین ومعلمین ورثوا علمھم وطرائقھم فی البحث والاستنباط من خلفھم فی حمل لواء العلم من التابعین وأتباع التابعین۔ ‘‘[1] ’’جیسا کہ آپ کو معلوم ہو چکا‘ صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اجتہاد ‘ پیش آمدہ مسائل سے متعلق حکم شرعی کو کتاب اللہ میں اور پھر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تلاش کرنے اور اگر ان دونوں میں بھی نہ ملے توقرآن وسنت پر مبنی رائے پر عمل کرنے کا نام تھا۔ اس زمانے میں مفتی حضرات مختلف مناہج پر عمل پیرا تھے۔ ان میں سے بعض ایسے تھے جو اجتہاد و رائے کے اظہار میں وسعت سے کام لیتے‘ مصالح کو جانچتے اور حکم کی بنیاد‘ ان مصالح پر رکھتے تھے جیسا کہ حضرت عمر اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ہیں۔ جبکہ ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بعض ایسے بھی تھے جنہیں ان کی شدت ِاحتیاط نصوص پر توقف کرنے اور صرف آثار ہی کے تمسک پرابھارتی تھی‘ جیسا کہ حضرت عباس‘ حضرت زبیر‘ حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب اور عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم تھے۔ پس جب صحابہ رضی اللہ عنہم مختلف شہروں میں قاضی‘ مفتی اور معلم کے طور پرپھیل گئے تو ان شہروں کے حاملین ِ علم تابعین و تبع تابعین نے تحقیق و استنباط میں ان صحابہ کے علم اور مناہج کو بطور ورثہ حاصل کیا۔ ‘‘ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد نئے پیش آمدہ مسائل کے حل کے یہ دو مناہج دو مستقل مکاتب فکر کی صورت میں سامنے آئے۔ جس میں سے ایک کانام اہل الحدیث تھا اور دوسرے اہل الرائے کہلاتے تھے۔ استاذ محمد علی السایس رحمہ اللہ اہل الحدیث کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ کان من علماء ھذا العصر الوقافون عند النصوص والآثار لا یحیدون عنھا ولا یلجأون إلی الرأی إلا عند الضرورۃ القصوی وھم أھل الحجاز وعلی رأسھم سعید بن المسیب إذ رآی ھو وأصحابہ أن أھل الحرمین الشریفین أثبت الناس فی الحدیث والفقہ فأکب علی ما بأیدیھم من الآثار یحفظہ فجمع فتاوی أبی بکر وعمر وعثمان وأحکامھم و فتاوی علی قبل الخلافۃ وعائشۃ وابن عباس وابن عمر وزید بن ثابت وأبی ھریرۃ وقضایا قضاہ المدینۃ وحفظ من ذلک شیئاً کثیرا ورأی أنہ بعد ھذا فی غنیۃ عن استعمال الرأی۔ ‘‘[2] ’’اس دور کے علماء میں ایک طبقہ ان فقہاء کا تھا جو نصوص و آثار پر ممکن حد تک وقف کرتے تھے اور ان سے کسی صورت انحراف نہ کرتے تھے اوررائے و قیاس کی طرف انتہائی ضرورت کے وقت ہی متوجہ ہوتے تھے۔ یہ طبقہ اہل حجاز کے علماء کاتھا۔ ان کے سربراہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ تھے۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کی رائے یہ تھی کہ اہل حرمین لوگوں میں سب سے زیادہ حدیث و فقہ کو جاننے والے تھے۔ پس اہل حرمین کے پاس جوآثار تھے‘ وہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے ان کو یاد کیا۔ پس انہوں نے حضرت أبوبکر‘ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے فتاوی اور ان کے احکام کو جمع کیا۔ انہوں نے حضرت عائشہ‘ حضرت عبد اللہ بن عباس‘ حضرت عبد اللہ
[1] تاریخ الفقہ الإسلامی:ص۷۲ [2] أیضاً: ص۷۳