کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 255
’’ تطلق کلمۃ الشیعۃ علی جماعۃ من المسلمین تشیعوا لآل البیت فلم یکونوا یرون الخلافۃ حقاً إلا لعلی رضی اللّٰہ عنہ و آل بیتہ۔ ۔ ۔ فلم یعترف الشیعۃ بخلافہ الأمویین وجوزوا الخروج علیھم وکانوا یرون أن علیاً أفضل الخلق بعد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأعلاھم منزلۃ فی الجنۃ وأکثرھم خصائص ومزایا وأنہ معصوم وکذلک من بعدہ من الأئمۃ وأن کل من عاداہ فإنہ عدو اللّٰہ وخالد فی النار مع الکفار والمنافقین وأنہ لیس بینہ وبین النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلا النبوۃ۔ ‘‘[1] ’’کلمہ ’شیعہ‘کا اطلاق مسلمانوں کی ایک جماعت پر ہوتا ہے جنہوں نے آل بیت کی محبت میں ایک فرقہ کی بنیاد رکھی۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آل بیت کے علاوہ کسی کی بھی خلافت کے قائل نہیں ہیں۔ ۔ ۔ پس شیعہ نے(خلفائے ثلاثہ کی طرح)أموی خلفاء کی خلافت کا بھی اعتراف نہ کیا اور ان کے خلاف خروج کو جائز قرار دیاہے۔ ان کایہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مخلوق میں سب سے افضل ہیں اور جنت میں ان کا مقام باقی تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے عالی ہے۔ ان کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیات اور امتیازات بہت زیادہ ہیں اور وہ معصوم ہیں۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد آنے والے(گیارہ أئمہ)بھی معصوم ہیں۔ جس نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دشمنی کی وہ اللہ کا دشمن ہے اور جہنم میں کفار و منافقین کے ساتھ ہمیشہ ہمیش رہے گا۔ ان کایہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین سوائے نبوت کے کوئی فرق نہیں ہے۔ ‘‘ اہل تشیع کی طرح خوارج نے بھی اجماع کا انکار کیا۔ ڈاکٹر تاج عروسی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ ومن أھم آرائھم إنکار القیاس وعدم اعتبارہ حجۃ وقولھم بکفر علی لقبولہ التحکیم وبکفر معاویۃ وأبی موسی الأشعری وعمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنھم لاشتراکھم فی التحکیم ویرون الخروج علی الإمام واجباً فی جمیع الظروف والأحوال سواء کانت لدیھم القدرۃ التی تمکنھم من تقویم إعجاج الخلیفۃ أم لم یکن لدیھم ذلک ویطعنون فی أصحاب الجمل طلحۃ والزبیر وعائشۃ۔ ۔ ۔ ویرون أن من لم یعمل بأوامر الدین أو یرتکب الکبائر فإنہ یکون کافرا۔ ۔ ۔ ولا یأخذون بحد الرجم بالنسبۃ للزانی المحصن وقالوا لا رجم فی القرآن۔ ۔ ۔ ولا یعتبرون الإجماع حجۃ مثل القیاس رأی جماعۃ لا یعترفون بھا۔ ‘‘[2] ’’ان کے اہم افکار میں قیاس کا انکار اور اس کو ایک شرعی حجت تسلیم نہ کرنا ہے۔ انہوں نے تحکیم کے مسئلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کفر کا فتوی عائد کیا اور اسی طرح یہ لوگ حضرت معاویہ‘ حضرت أبوموسی أشعری اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم پر بھی تحکیم کے مسئلے میں شریک ہونے کی وجہ سے کفر کا فتوی لگاتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ امام وقت کے خلاف ہر حال میں خروج کو واجب سمجھتے ہیں ‘ چاہے ان کے پاس اس کی قدرت ہو کہ وہ امام کی کجی کودرست کر سکیں یا ان کو اس پر قدرت نہ ہو۔ یہ أصحاب جمل حضرت طلحہ‘ زبیر اور عائشہ رضی اللہ عنہم پر بھی طعن کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ان کی رائے یہ بھی ہے کہ جو شخص أوامر دین پر عمل نہ کرے یا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔ ۔ ۔ یہ شادی شدہ زانی کے لیے حد رجم کے بھی قائل نہیں ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ رجم قرآن میں نہیں ہے۔ ۔ ۔ یہ قیاس کی طرح اجماع کوبھی شرعی حجت تسلیم نہیں کرتے بلکہ اجماع کوایک ایسی جماعت کی رائے کا درجہ دیتے ہیں جس کی علمی حیثیت کے یہ معترف نہیں ہیں۔ ‘‘ اہل الحدیث اور اہل الرائے کے مابین شدید اختلافات کا ظہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں قرآن و سنت بنیادی مصادر شمار ہوتے تھے۔ اگر کوئی مسئلہ قرآن وسنت میں واضح نہ ہوتا تھا تو وہ اجتماعی مشاورت سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے تھے‘ جو بعض اوقات اجماع سکوتی کے درجے کو بھی پہنچ جاتا تھا۔ اور اگربعض حالات میں
[1] الفقہ الإسلامی فی میزان التاریخ:ص۱۰۹ [2] أیضاً:ص۱۰۷۔ ۱۰۸