کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 254
الفاظ میں فقہاء صحابہ رضی اللہ عنہم کے بکھر جانے سے یہ ادارہ بھی بکھر کر رہ گیا۔ خوارج اور شیعہ کا اجماع سے انکار کرنا تابعین عظام کے دور میں اجتماعی اجتہاد کے تصور کو سمجھنے کے لیے اس وقت کے سیاسی فرقوں کا مختصر تذکرہ ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ اس دور تک مسلمان امت تقریباًتین فرقوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ اہل سنت‘ اہل تشیع اور خوارج۔ خوارج اور اہل تشیع کا فتنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور ہی سے شروع ہو گیاتھا۔ خوارج در حقیقت وہ بلوائی تھے جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اپنے أقرباء کو نوازنے کے الزامات عائد کئے اور بالآخر ان کو ان کے گھر ہی میں شہیدکر دیا۔ بعدازاں یہ گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں بھی شامل رہا۔ حضرت علی اور حضرت أمیر معاویہ رضی اللہ عنہما کی باہمی لڑائی میں یہ ان دونوں گروہوں سے علیحدہ ہو گئے اور انہوں نے ایک نئے فرقے کی بنیاد رکھی۔ دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت سے محبت میں غلو کی بنا پرشیعان ِ علی کا فرقہ وجود میں آیا۔ یہ دونوں فرقے متعدد متعصب افکار اور شدت پسندانہ رویوں کے حامل تھے۔ ان دونوں فرقوں نے اجماع کا بھی انکار کیا۔ انکار ِ اجماع کے اس رویے نے اجتماعی اجتہاد کے فکر پر بڑا گہرا منفی اثر ڈالا۔ ڈاکٹر تاج عبد الرحمن عروسی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’کان الإجماع مصدر لکثیر من الأحکام أیام الخلفاء الراشدین أما فی عصر التابعین فقد کان متعذرا بسبب انتشار الصحابۃ فی الأمصار وحدوث النزاع بین علی ومعاویۃ الذی أدی إلی تفریق المسلمین إلی فرق سبقت الإشارۃ إلیہا وکان لھذا التفرق تأثیر کبیر فی الفقہ الاسلامی فالشیعۃ لا یرون الإجماع والقیاس حجۃ لأن الإجماع عندھم اتفاق جمیع المجتھدین من شیعۃ وغیرھم وھم لا یقیمون لآراء غیر الشیعۃ وزناً۔ ‘‘[1] ’’خلفائے راشدین کے زمانہ میں اجماع احکام شرعیہ کی ایک کثیر تعداد کے لیے بنیادی مصدر کی حیثیت رکھتا تھاجبکہ تابعین کے دور میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے مختلف شہروں میں انتشار اورحضرت علی و معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین نزاعات‘ کہ جنہوں نے مسلمانوں کو ان گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا کہ جن کی طرف اشارہ گزر چکا ہے‘ کے ظہور کی وجہ سے اجماع کا حصول مشکل ہوگیاتھا۔ ان فرق اسلامیہ کے اسلامی فقہ پر بہت گہرے اثرات رونما ہوئے۔ جیسا کہ اہل تشیع اجماع اور قیاس کو حجت نہیں سمجھتے تھے کیونکہ اجماع تو ان کے ہاں شیعہ و غیر شیعہ یعنی جمیع مجتہدین کے اتفاق کانام ہے ‘ جبکہ دوسری طرف وہ غیر شیعہ فقہاء کی آراء و افکار کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ‘‘ أستاذ علی السایس رحمہ اللہ اس دور میں اہل تشیع کے انکار اجماع کے فکر کے اسباب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’أنہم لا یأخذون بالإجماع کأصل من أصول التشریع ولا یقولون بالقیاس أما الإجماع فلأن الأخذ بہ یستلزم الاعتراف ضمناً بأقوال غیر الشیعۃ من الصحابۃ والتابعین وھم لا یعتدون بأولئک من الدین۔ ‘‘[2] ’’اہل تشیع اجماع کو اصول شریعت میں سے ایک اصل کے طور پر قبول نہیں کرتے اور اسی طرح وہ قیاس کا بھی انکار کرتے ہیں۔ جہاں تک اجماع کا معاملہ ہے تو اس کا انکار انہوں نے اس لیے کیا ہے کہ اگر وہ اس کو ایک مستقل ماخذ کے طور پر مان لیں تو انہیں غیر شیعہ علماء کے علاوہ صحابہ رضی اللہ عنہم ‘ تابعین رحمہم اللہ اور ان علماء کی آراء کو بھی ماننا پڑے گا جن کووہ دین میں ذرا بھی حیثیت نہیں دیتے۔ ‘‘ پس اہل تشیع میں اجتماعی اجتہاد کااگرکوئی تصور باقی رہا بھی تو وہ صرف ان کے ہم مذہب و ہم مسلک علماء کا اجتماعی اجتہاد تھا نہ کہ امت کے علماء کا۔ جبکہ دوسری طرف اس فرقے کے علماء ‘ اہل سنت کی اجتہادی آراء کو اس لیے کوئی حیثیت نہیں دیتے کہ ان کو اہل سنت سے چند بنیادی اختلافات تھے۔ ڈاکٹر تاج عروسی حفظہ اللہ ان اختلافات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
[1] الفقہ الإسلامی فی میزان التاریخ:ص۱۲۵ [2] تاریخ الفقہ الإسلامی:ص۶۵