کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 253
بعض بدعتی فرقوں کی طرف سے اجماع کی اہمیت کا انکار کر دینا اور اہل الحدیث اور اہل الرائے کے مابین شدید فقہی اختلافات کا ظہور اہم ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مختلف شہروں کی طرف ہجرت کرنا
خلافت راشدہ کے شروع کے ادوار میں فقہائے صحابہ تقریباً مدینہ ہی میں رہائش پذیر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو اپنے زمانے میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو دار الخلافہ یعنی مدینہ منورہ چھوڑ کر دوسرے شہروں میں سکونت اختیار کرنے سے جبراً روکتے بھی تھے۔ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے زمانے میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد نے دوسرے شہروں کی طرف ہجرت کی اور وہاں مختلف علمی مکاتب فکر کی بنیاد رکھی۔ استاذ محمد علی السایس رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ قد علمت أن عمر کان یحرم علی کبار الصحابۃ أن یبرحوا المدینۃ إلا لحاجۃ ماسۃ وأنہ کان بعید النظر فی ذلک إذ تیسر الإجماع وبہ قضی علی کثیر مما اختلفوا فیہ فلما کان زمن عثمان وزادت الفتوح توسعاً رخص لھم فی الانتشار وسکنی الأقطار المفتوحۃ فتفرقوا بالأمصار واستوطنوھا معلمین وقارئین وحراساً ومرابطین وکانت الأمصار متعطشۃ لمعونۃ تعالیم الدین الإسلامی فأقبل أھل کل قطر علی ما نزل بہ من الصحابۃ یستفتونھم ویروون عنھم ویعلمون عنھم ومن الثابت أن الصحابۃ لم یکونوا فیما یعلمون سواء ولیس کل ما حفظہ أحدھم یحفظہ الآخر وأن الأمصار تختلف فی عاداتھا وأنواع معیشتھا وأحوالھا الاجتماعیۃ والاقتصادیۃ وأنہ کان من المتعذر علی علماء الأمصار المترامیۃ أن یتصلوا اتصالاً علمیاً وثیقاً لبعد المشقۃ وصعوبۃ المواصلات وکان من نتیجۃ ذلک أن تشبث أھل کل قطر بفتاوی علمائھم وأحادیثھم وعولوا علی ما جری علیہ عملھم وحکم بہ قضاتھم لأنھم شاھدوا أحوالھم وخبروا أسبرتھم و وثقوا بھم فکان للمصریین فتاو وللشامیین فتاو۔ ‘‘[1]
’’جیساکہ آپ کو معلوم ہو چکا‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ‘کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کو بغیر کسی أشد ضرورت کے مدینہ سے دوسرے شہروں میں منتقل ہونے سے روکتے تھے۔ وہ اس مسئلے میں گہری نگاہ رکھتے تھے کیونکہ اس سے اجماع بھی میسر آتاتھا اور جب صحابہ کا آپس میں اختلاف ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کی اجماعی رائے کے مطابق فیصلہ کرتے۔ لیکن جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیااور فتوحات اسلامیہ سے اسلامی سلطنت کادائرہ وسیع ہو گیاتو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو دوسرے شہروں میں منتقل ہونے اورمفتوح علاقوں میں رہائش رکھنے کی اجازت دے دی۔ پس مدینہ میں مقیم صحابہ مختلف شہروں میں پھیل گئے اور انہوں نے معلم‘قاری‘نگران اور محافظ کے طور پربلاد اسلامیہ کو اپنا ٹھکانا بنایا۔ ہر شہر کے لوگ اسلامی تعلیمات کے حصول کے لیے پیاسے تھے۔ پس ہر شہر کے لوگ ان مہمان صحابہ رضی اللہ عنہم سے فتاوی طلب کرتے‘ ان سے روایت کرتے اور ان سے علم حاصل کرتے۔ یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا معیار علم ایک جیسا نہ تھا اور ایسا بھی نہ تھا کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے پاس دین کاجو علم محفوظ تھا‘ دوسرے کوبھی وہ سب کچھ یادہو۔ اسی طرح مختلف شہروں کے رسوم و رواج‘ انواع معیشت‘ معاشرتی و اقتصادی حالات ایک جیسے نہ تھے۔ ان وسیع و عریض شہروں کے علماء کے لیے انتہائی مشکل تھا کہ سخت مشقت اور ذرائع نقل و حمل کی تنگی کے باعث وہ باہمی علمی مجالس کاانعقاد کرتے۔ اس کانتیجہ یہ نکلا کہ ہر شہر میں اس شہر کے علماء کے فتاوی اور احادیث پھیل گئیں اوراس شہر کی عوام نے ان علماء کے عمل پر اعتماد کیااور ان علماء کے فتاوی کے مطابق ان شہروں کے قاضیوں نے فیصلے کیے۔ علاوہ ازیں یہ لوگ ان علماء کے حالات کے عینی شاہدتھے اور انہوں نے ان علماء کی حقیقت أحوال کی خبر دی اور انہوں نے ان کے علم پر اعتماد کیا۔ پس اسی وجہ سے مصری فقہاء کے فتاوی اور تھے اور شامی علماء کے فتاوی اور تھے۔ ‘‘
کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس انتشار کی وجہ سے خلافت راشدہ میں قائم ہونے والے اجتماعی اجتہاد کے ادارے پر منفی اثرات پڑے۔ دوسرے
[1] تاریخ الفقہ الإسلامی:ص۶۶۔ ۶۷