کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 252
والے علماء درج ذیل تھے:
’’وتخرج علیہ عدد من علماء التابعین المعروفین فی البصرۃ وعلی رأسھم الحسن البصری ومحمد بن سیرین مولی أنس بن مالک وکعب بن الأسود وأبو الشعثاء جابر بن زید والحسن بن أبی الحسین مولی زید بن ثابت۔ ‘‘[1]
’’بصرہ میں حضرت أنس رضی اللہ عنہ سے مستفید ہونے والے معروف تابعین رحمہم اللہ کئی ایک تھے۔ جن میں سب سے نمایاں حسن بصری‘محمد بن سیرین مولی أنس بن مالک‘ کعب بن أسود‘ أبو شعثاء جابر بن زید‘ حسن بن أبی حسین مولی زید بن ثابت رحمہم اللہ ہیں۔ ‘‘
فقہائے شام
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں حضرت عبد الرحمن بن غنم أشعری‘ حضرت معاذ بن جبل‘ حضرت عبادۃ بن صامت اور حضرت أبو دردا ء رضی اللہ عنہم کو شام کی طرف بھیجا۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہم سے علم أخذ کرنے والے فقہاء و تابعین درج ذیل تھے:
’’ وتخرج علی أیدیھم جمیعاً کثیر من التابعین کأبی إدریس الخولانی ومکحول بن أبی مسلم الدمشقی ورجاء بن حیوۃ وعمر بن عبد العزیز۔ ‘‘[2]
’’ ان صحابہ رضی اللہ عنہم سے مستفید ہونے والی تابعین کی جماعت میں أبو ادریس الخولانی‘ مکحول بن أبی مسلم دمشقی‘رجاء بن حیوۃ اور عمر بن عبد العزیز رحمہم اللہ ہیں۔ ‘‘
فقہائے مصر
مصر میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے علمی تحریک کا آغاز کیا۔ مصر میں سکونت اختیار کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے یہ حدیث کے سب سے بڑے عالم تھے۔ ان سے استفادہ کرنے والے علماء بہت سے تھے۔ ان کی وفات کے بعد مصر میں ایک فقیہ کے طور پر جو معروف ہوئے‘ وہ یزید بن أبی حبیب رحمہ اللہ تھے جو امام لیث بن سعد رحمہ اللہ کے استاد ہیں۔ أستاذ محمد علی السایس رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ واشتھر فی مصر: یزید بن حبیب مولی الأزد کان مفتی أھل مصر وعنہ أخذ اللیث بن سعد۔ ‘‘[3]
’’مصر میں تابعین کی جماعت میں سے یزید بن حبیب رحمہ اللہ بطور فقیہ مشہور ہوئے‘ یہ اہل مصر کے مفتی تھے اور ان سے لیث بن سعد رحمہ اللہ نے استفادہ کیا۔ ‘‘
دور تابعین رحمہم اللہ میں اجتماعی اجتہاد کی فکر
حضرت أبوبکر و حضر ت عمر رضی اللہ عنہما کے دور تک تو اجتماعی و مشاورتی اجتہاد کا ادارہ خوب نشوونما پاتا رہا۔ لیکن حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے دور میں بعض سیاسی و فکری اختلافات اور باہمی جنگ و جدال کی وجہ سے مسلمانوں کی اجتماعیت انتشار کا شکار ہو گی‘ جس کے اثرات اسلامی ریاست کے مختلف ذیلی اداروں پر بھی پڑے۔ پس اجتماعی اجتہاد کا وہ ادارہ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہمیں اپنے نقطہ عروج پر نظر آتا ہے‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے آخری حصہ میں رُوبہ زوال ہونا شروع ہو گیا۔ تابعین رحمہم اللہ کے دور تک باہمی جنگ و جدال تو کسی حد تک کنڑول میں آ گیا تھا لیکن فکری و سیاسی اختلافات کی بنیادیں بہت گہری ہو چکی تھیں لہذاکئی ایک نئے فرق کا ظہور بھی ہو گیاتھا۔ اس دور میں اجتماعی اجتہادکی فکر و منہج کو کئی ایک أسباب کی وجہ سے کافی نقصان پہنچا۔ جن میں سے أصحاب علم و فضل کا متفرق اسلامی شہروں میں پھیل جانا‘
[1] الفقہ الإسلامی فی میزان التاریخ:ص۱۱۶
[2] أیضاً
[3] تاریخ الفقہ الإسلامی:ص۷۲