کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 251
فقہائے مکہ مکہ میں موجود فقہاء صحابہ رضی اللہ عنہم میں نمایاں ترین حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تھے۔ جن کے بارے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کو قرآن کی تفسیر و تاویل کا علم عطا فرمائے۔ ا بن عباس رضی اللہ عنہ سے علم تفسیر و فقہ سیکھنے والے معروف فقہائے تابعین درج ذیل تھے: ’’ وقد اشتھر من تلا مذہ: عطاء بن أبی رباح المتوفی سنۃ ۱۰۵ھ۔ وعبد اللّٰہ بن عبید بن أبی ملیکۃ المتوفی سنۃ ۱۱۷ھ۔ وعمرو بن دینار المتوفی سنۃ ۱۲۶ھ۔ وعکرمۃ مولی ابن عباس المتوفی سنۃ ۱۰۵ھ۔ ومجاہد بن جبیر المتوفی سنۃ ۱۰۳ھ۔ ‘‘[1] ’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے مشہور تلامذہ میں عطابن أبی رباح( متوفی۱۰۵ھ)اورعبداللہ بن عبید بن أبی ملیکہ(متوفی ۱۱۷ھ)اور عمرو بن دینار(متوفی ۱۲۶ھ)اور عکرمہ مولی ابن عباس رضی اللہ عنہ (متوفی ۱۰۵ھ)اور مجاہد بن جبیر(متوفی ۱۰۳ھ) رحمہم اللہ شامل ہیں۔ ‘‘ فقہائے کوفہ حرمین سے نکلنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت نے کوفہ میں بھی سکونت اختیارکی۔ ان ہجرت کرنے والوں میں حضرت عبد اللہ بن مسعود‘ حضرت أبو موسی أشعری‘ حضرت سعد بن أبی وقاص‘ حضرت عمار بن یاسر‘ حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت أنس بن مالک رضی اللہ عنہم وغیرہ نمایاں صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے دور خلافت میں جب مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کو متفرق اسلامی شہروں کی طرف بھیجا تواس ہجرت کے مرحلے میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم کوفہ بھی منتقل ہوئے۔ مؤرخین کے ایک قول کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سانحہ شہادت تک تقریباً تین صد صحابہ کوفہ منتقل ہو چکے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو انہوں نے کوفہ کو اپنا دار الخلافہ بنایا۔ جس وجہ سے یہ شہرصحابہ رضی اللہ عنہم کی پہلے کی نسبت اور زیادہ توجہ کا مرکز بنا۔ علاوہ ازیں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں کوفہ کے لیے ایک معلم خصوصی کے طور پر بھیجا تھا۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہم کے مکتبہ فکر سے مستفید ہونے والے فقہاء و علماء کے بارے ڈاکٹر تاج عبد الرحمن عروسی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’من أشھرھم: علقمۃ بن قیس النخعی والأسود بن یزید النخعی وأبو میسرۃ عمرو بن شراحیل الھمدانی ومسروق بن الأجدع الھمدانی وشریح بن الحارث الکندی ثم جاء ت الطبقۃ الثانیۃ بعد ھؤلاء أمثال حماد بن أبی سلیمان ومنصور بن المعتمر السلمی والمغیرۃ بن مقسم الضبی وسلیمان بن مھران الأعمش وسعید بن جبیر وانتھت ریاسۃ ھذہ المدرسۃ إلی ابن أبی لیلی وابن شبرمۃ وشریک القاضی وأبی حنیفۃ رحمھم اللّٰہ جمیعاً۔ ‘‘[2] ’’اس مکتبہ فکر کے معروف فقہاء میں علقمہ بن قیس نخعی‘ أسود بن یزید نخعی‘ أبو میسرۃ عمرو بن شراحیل ہمدانی‘ مسروق بن أجدع ہمدانی اورشریح بن حارث کندی رحمہم اللہ شامل ہیں۔ ان فقہاء کے بعد دوسرا طبقہ آیا‘ جن میں حماد بن أبی سلیمان‘ منصور بن معتمرسلمی‘مغیرہ بن مقسم الضبی اور سلیمان بن مہران الأعمش اورسعید بن جبیر رحمہم اللہ نمایاں ہیں ‘ یہاں تک کہ اس مدرسہ فکر کی انتہاء ابن أبی لیلی‘ ابن شبرمہ‘ شریک القاضی اور أبوحنیفہ رحمہم اللہ پر ہوئی۔ ‘‘ فقہائے بصرہ بصرہ میں خادم رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت أنس بن مالک رضی اللہ عنہ نے تعلیم و تعلم کا سلسلہ شروع کیا۔ تابعین کے طبقہ میں ان سے مستفید ہونے
[1] الفقہ الإسلامی فی میزان التاریخ:ص۱۱۴ [2] أیضاً: ص۱۱۵۔ ۱۱۶