کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 250
فصل دوم
تابعین رحمہم اللہ اور أئمہ أربعہ رحمہم اللہ کے دور میں اجتماعی اجتہاد
پچھلی فصل میں ہم یہ تذکرہ کر چکے ہیں کہ خلافت راشدہ ہی کے دوران فقہائے صحابہ رضی اللہ عنہم بڑے بڑے اسلامی شہروں میں پھیل گئے اور انہوں نے وہاں علمی مجالس اورتعلیمی حلقے قائم کیے۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہم سے استفادہ کرنے والے تابعین رحمہم اللہ کی تعدادد بہت زیادہ تھی اور انہی تابعین رحمہم اللہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی وفات کے بعد ان شہروں میں افتاء و تدریس کی مسند کو سنبھالا۔ ذیل میں ہم اس دور کے معروف اسلامی شہروں کے مفتی و فقہائے صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کا ایک اجمالی تعارف نقل کر رہے ہیں :
فقہائے مدینہ
مدینہ میں جو فقہاء صحابہ رضی اللہ عنہم افتاء و اجتہاد کے میدان میں معروف تھے‘ ان میں حضرت عائشہ‘ حضرت عبد اللہ بن عمر‘ حضرت زید بن ثابت اور حضرت أبو ہریرہ رضی اللہ عنہم نمایاں تھے۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے علمی حلقوں سے پیاس بجھانے والے تابعین رحمہم اللہ کی جماعت بہت بڑی ہے۔ تاریخ فقہ اسلامی کی کتابوں میں ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام گنوائے ہیں جو سلطنت اسلامیہ کے بڑوں شہروں میں مسند افتاء پر فائز ہوئے۔ ڈاکٹر تاج عبد الرحمن عروسی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ وقد تخرج علی أیدی ھؤلاء عدد من التابعین وعلی رأسھم سعید بن المسیب المخزومی رحمہ اللّٰہ أحد الفقھاء السبعۃ الذین نشروا الفقہ والفتوی والعلم والحدیث وکان من أعبرالناس للرؤیا وأعلمھم بأنساب وکان یفتی والصحابۃ متوافرون توفی رحمہ اللّٰہ سنۃ ۹۳ھ۔ ۔ وعروۃ بن زبیر رحمہ اللّٰہ وأبوبکر بن عبد الرحمن المخزومی رحمہ اللّٰہ وخارجہ بن زید بن ثابت والقاسم بن محمد بن أبی بکر وسلیمان بن یسار وعبید اللّٰہ بن عبد اللّٰہ بن عتبۃ بن مسعود وعلی بن الحسین بن علی المعروف بزین العابدین وسالم بن عبد اللّٰہ بن عمر ونافع مولی ابن عمر وأبان بن عثمان وأبو سلمۃ بن عبد الرحمن بن عوف وجاء ت بعد ھذہ الطبقۃ طبقۃ أخری منھا: أبو بکر محمد بن عمرو بن حزم وعبد اللّٰہ بن عثمان بن عفان وابنا محمد بن الحنفیۃ ومحمد بن مسلم بن شھاب الزھری وجعفر بن محمد بن علی بن الحسین المعروف بالباقر وربیعۃ المعروف بربیعۃ الرأی وانتھت ریاسۃ ھذہ المدرسۃ إلی الإمام مالک رحمہ اﷲ۔ ‘‘[1]
’’ان صحابہ رضی اللہ عنہم سے تابعین رحمہم اللہ کی ایک بڑی تعداد نے علم حاصل کیا‘ جن میں سعید بن مسیب رحمہ اللہ سب سے نمایاں ہیں اور اُن فقہائے سبعہ میں سے ہیں ‘ جنہوں نے فقہ‘ فتوی‘ علم اور حدیث کے میدان میں اہم خدمات سر انجام دیں۔ یہ لوگوں میں سب سے زیادہ خوابوں کی تعبیر اور انساب کا علم رکھنے والے تھے۔ انہوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانے میں ہی فتوی دینا شروع کر دیا تھا۔ ان کی وفات ۹۳ھ میں ہوئی۔ اسی طرح عروہ بن زبیر‘ أبوبکربن عبد الرحمن مخزومی‘خارجہ بن زید بن ثابت‘ قاسم بن محمدبن أبی بکر‘ سلیمان بن یسار‘ عبیداللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود‘ علی بن حسین بن علی زین العابدین‘ سالم بن عبد اللہ بن عمر‘ نافع مولی ابن عمر‘ ابان بن عثمان اور أبو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف رحمہم اللہ بھی ان معروف تابعین میں سے ہیں جنہیں مذکورہ بالا صحابہ رضی اللہ عنہم سے شرف تلمذ حاصل ہے۔ اس طبقہ فقہاء کے بعد ایک اور طبقہ آیا‘ جن میں سے أبوبکر محمد بن عمروبن حزم‘ عبد اللہ بن عثمان بن عفان‘ محمد بن حنفیہ کے دونوں بیٹے‘ محمد بن مسلم بن شہاب زہری‘ جعفر بن محمد بن علی بن حسین الباقر اور ربیعہ رائی نمایاں ہیں۔ اس شہر کے علماء و فقہاء کی قیادت بالآخر امام مالک رحمہ اللہ کو منتقل ہوگئی۔ ‘‘
[1] الفقہ الإسلامی فی میزان التاریخ:ص۱۱۳۔ ۱۱۴