کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 248
وما أشار بہ علیک ؟ قال:إن ھؤلاء القوم یریدون خلعی فإن خلعت ترکونی وإن لم أخلع قتلونی قال: قلت: أرأیت إن خلعت أتراک مخلدا فی الدنیا ؟ قال: لا قلت: فھل یملکون الجنۃ والنار؟ قال: لا قلت: أرأیت إن لم تخلع أیزیدون علی قتلک ؟ قال: لا قلت: أرأیت تسن ھذہ السنۃ فی الإسلام کلما سخط قوم علی أمیر خلعوہ ولا تخلع قمیصا قمصکہ اللّٰہ۔ ‘‘[1]
’’عفان کہتے ہیں ‘ ہمیں جریر بن حازم نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ہمیں یعلی بن حکیم نے نافع سے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ مجھے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس وقت جب کہ وہ اپنے گھر میں محصورکر دیے گئے تھے‘ کہا: تمہاری اس بارے میں کیا رائے ہے جو مغیرۃ بن أخنس نے مجھے مشورہ دیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا‘میں نے پوچھا: انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا مشورہ دیا ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ قوم مجھ سے خلافت چھوڑنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگر میں نے اس خلعت کو اتار دیا تو یہ مجھے چھوڑ دیں گے اور اگر میں نے اس کونہ اتارا تو یہ مجھے قتل کر دیں گے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے پوچھا: آپ کی اس بارے میں کیارائے ہے کہ اگر آپ یہ خلعت اتار دیں تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس دنیا میں رہیں گے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں۔ میں (عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ )نے کہا: کیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنت و جہنم کا اختیار رکھتے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں۔ میں نے کہا: آپ کی اس بار ے میں کیا رائے ہے کہ اگر آپ یہ خلعت نہ اتاریں تو وہ آپ کے قتل کی تکلیف میں اضافہ کر سکتے ہیں ؟حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں۔ میں نے کہا: کیا آپ اسلام میں یہ سنت جاری کرنا چاہتے ہیں کہ جب بھی عوام میں سے ایک طبقہ کسی امیر کے خلاف ہوجائے تو وہ اس کو امارت سے ہٹا کر ہی دم لیں۔ (میرا مشورہ تو یہ ہے کہ)جو قمیص اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہنائی ہے ‘ آپ اس کوہر گز نہ اتاریں۔ ‘‘
یہ دور خلافت میں اجتماعی اجتہاد کی چند ایک مثالیں تھیں۔ اگرچہ واقعات تو اس کے علاوہ بھی نقل ہوئے ہیں لیکن طوالت سے بچنے کے لیے صرف انہی روایات کے بیان پر اکتفا کیا گیا ہے۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خلفائے راشدین کے زمانے میں اجتماعی اجتہاد کا طریقہ کار کافی معروف تھا اور نئے مسائل کے حل کے لیے اسلامی ریاست نے سرکاری سطح پر اجتہاد کے اس منہج کو اختیار کیا ہواتھا۔
٭٭٭
[1] مصنف ابن أبی شیبۃ‘ کتاب الفتن‘ باب ما ذکر فی عثمان (۳۷۶۵۶)‘ ۷؍ ۵۱۵۔