کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 247
کے صحف کو منگوایا اور بعض صحابہ کے تعاون سے قرآن کا ایک ایسا جامع رسم الخط ترتیب دیا‘ جس میں تمام متواتر قراء ات سما جائیں اور وہ قراء ات جو کہ منسوخ ہو چکی تھیں یا شاذ تھیں ‘ وہ اس سے نکل جائیں۔ اس مصحف کا نام ’مصحف امام‘ رکھا گیا۔ بعض متواترقراء ات پھر بھی ایسی تھی جو مختلف علاقوں میں پڑھی جاتی تھیں لیکن مصحف امام کے رسم میں لانا ان کو ممکن نہ تھا۔ اس کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مختلف شہروں کے لیے مختلف مصحف بھی تیار کروائے اور یہ مصاحف‘ مصحف امام کی نقل تھے لیکن کہیں کہیں ان میں وہ اضافی قراء ات بھی ساتھ ہی درج ہوتی تھیں جو اس علاقے کے رہنے والوں میں معروف تھیں۔ محققین کی روایت کے مطابق یہ مصاحف تقریباً پانچ تھے‘ جن کے نام یہ ہیں : مصحف مکی‘ مصحف مدنی‘ مصحف بصری‘ مصحف شامی‘ مصحف کوفی۔ ایک روایت میں اس واقعے کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے:
’’ أن حذیفۃ بن الیمان قدم علی عثمان وکان یغازی أھل الشام فی فتح إرمینیۃ وأذربیجان مع أھل العراق فأفزع حذیفۃ اختلافھم فی القراأ ۃ فقال حذیفۃ لعثمان یا أمیر المؤمنین أدرک ھذہ الأمۃ قبل أن یختلفوا فی الکتاب اختلاف الیھود والنصاری فأرسل عثمان إلی حفصۃ أن أرسلی إلینا بالصحف ننسخھا فی المصاحف ثم نردھا إلیک فأرسلت بھا حفصۃ إلی عثمان فأمر زید بن ثابت وعبد اللّٰہ بن زبیر وسعید بن العاص وعبد الرحمن بن الھارث بن ھشام فنسخوھا فی المصاحف وقال عثمان الرھط القرشیین الثلاثۃ إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت فی شیء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فإنما نزل بلسانھم ففعلوا حتی إذا نسخوا الصحف فی المصاحف رد عثمان الصحف إلی حفصۃ وأرسل إلی کل أفق بمصحف مما نسخوا وأمر بما سواہ من القرآن فی کل صحیفۃ أو مصحف أن یحرق۔ ‘‘[1]
’’حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ‘حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور وہ آرمینیہ اور آذربائیجان کی فتح میں اہل عراق اور اہل شام کے ساتھ مل کرلڑنے والوں میں سے تھے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے اختلافات قراء ات سے گھبرا گئے اور انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیر المؤمنین!اس امت کو پکڑیں اس سے پہلے کہ یہ یہود و نصاری کی طرح قرآن میں اختلاف کرنے لگ جائے۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہr کی طرف ایک آدمی بھیجاکہ آپ ہماری طرف ان صحف کوبھیجیں تاکہ ہم انہیں نقل کر لیں اور پھر آپ کو واپس لوٹا دیں گے۔ پس حضرت حفصہr نے ان صحف کوحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف بھیج دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت‘ عبداللہ بن زبیر‘ سعید بن العاص اور عبد الرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا‘ پس انہوں نے ان صحف کو مصاحف میں نقل کیا۔ اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تینوں قریشی صحابہ رضی اللہ عنہم سے کہا: اگر تمہارا اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا قرآن کے رسم الخط میں اختلاف ہوجائے تو اس کو قریش کی زبان کے مطابق لکھنا کیونکہ قرآن ان کی زبان میں نازل ہو اہے۔ پس انہوں نے ایسا ہی کیایہاں تک کہ جب انہوں نے تمام صحف کو مصاحف میں نقل کردیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان صحیفوں کو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف واپس بھیج دیا۔ اور جو انہوں نے مصاحف تیار کیے تھے ان میں ایک ایک ہر علاقے میں بھیج دیا۔ اور یہ حکم جاری کیا کہ اس کے علاو ہ تمام مصاحف کوجلا دیا جائے۔ ‘‘
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خلافت او ر أمارت سے اپنی معزولی بارے بعض صحابہ سے مشاورت
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت کے آخری حصے میں خوارج و بلوائیوں کی طرف سے ان پر بہت سے جھوٹے الزامات لگائے گئے اور مدینہ میں ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا گیا۔ بلوائیوں نے ان سے مطالبہ کیا‘ یا تو وہ خلافت سے دستبردار ہو جائیں یا وہ ان کو شہید کر دیں گے۔ اس محاصرے کے دوران حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس بارے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں :
’’ عفان قال حدثنا جریر بن حازم قال أخبرنا یعلی بن حکیم عن نافع قال حدثنی عبد اللّٰہ بن عمر قال: قال لی عثمان وھو محصور فی الدار: ما تقول فیما أشار بہ علی المغیرۃ ابن الأخنس؟ قال: قلت:
[1] صحیح بخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن (۴۷۰۲)‘ ۴؍ ۱۹۰۸۔