کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 246
سنۃ من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فانظر ما اجمتع علیہ الناس فخذ بہ‘ فان جا ء ک ما لیس فی کتاب اللّٰہ ولم یکن فی سنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولم یتکلم فیہ أحد قبلک فاختر أی الأمرین شئت۔ إن شئت أن تجتھد رأیک ثم تقدم فتقدم ‘ وإن شئت أن تأخر فتأخر‘ ولا أری التأخر إلا خیرا لک۔ ‘‘[1] ’’ہمیں محمد بن عیینہ نے علی بن مسہر سے‘ انہوں نے أبو اسحاق سے‘ انہوں نے شعبی سے‘ انہوں نے شریح سے خبر دی ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف ایک خط لکھا: اگر تمہارے پاس کوئی مسئلہ آئے جو کتاب اللہ میں ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرو اور لوگ تجھے اس سے پھیر نہ دیں۔ پس جب تم سے کسی چیز کے بارے میں سوال ہو تو کتاب اللہ میں غور و فکر کرو۔ پس اگروہ کوئی ایسا مسئلہ ہو جس کو تم کتاب اللہ میں نہ پاؤ تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تلاش کرو اور اس کے مطابق فیصلہ کرو۔ پس اگروہ ایسا مسئلہ ہو جو نہ کتاب اللہ میں ہو اور نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ‘ تو اس کو تلاش کرو جس پر تمام مسلمانوں نے اتفاق کیا ہو اور اس کو لے لو۔ پس اگروہ ایسا مسئلہ ہو جو نہ کتاب اللہ میں ہو اور نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ‘ نہ ہی اس کے بارے میں اس سے پہلے کسی نے اجتہاد کیا ہو تو دو کاموں میں سے جو چاہے اختیار کر لو۔ اگر تو چاہے تو اپنی رائے بنانے میں اجتہاد کر اور آگے بڑھتا ہی چلاجا اور اگر چاہے تو ٹھہرا رہ ‘ پس ٹھہرا ہی رہے۔ میں تمہارے لیے توقف(ٹھہرے رہنے)کو بہتر خیال کرتا ہوں۔ ‘‘ شیخ حسین سلیم أسد نے اس روایت کی سند کو’جید‘ کہا ہے۔ [2] خلیفہ ثالث کی تقرری کے لیے باہمی مشاورت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے پہلے چھ افراد کی ایک کمیٹی بنا دی تھی اور یہ حکم جاری فرمایا تھا کہ باہمی مشاورت سے ان افراد میں سے ایک کو خلیفہ بنا لینا۔ یہ چھ افرادحضرت علی‘ حضرت عثمان‘ حضرت عبد الرحمن بن عوف‘ حضرت زبیر بن عوام‘ حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور حضرت سعد بن مالک ] تھے۔ ابن سعد رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ أخبرنا محمد بن عمر قال: حدثنی الضحاک بن عثمان بن عبد الملک بن عبید عن عبد الرحمن بن سعید بن یربوع أن عمر حین طعن قال: لیصل لکم صھیب ثلاثا وتشاوروا فی أمرکم والأمر إلی ھؤلاء الستۃ فمن بعل أمرکم فاضربوا عنقہ یعنی من خالفکم۔ ‘‘[3] ’’ہمیں محمد بن عمر نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں ضحاک بن عثمان بن عبد الملک بن عبید نے بیان کیا‘ انہوں نے عبد الرحمن بن سعید بن یربوع سے نقل کیا کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر حملہ ہوا تو انہوں نے کہا: تین دن تک حضرت صہیب رضی اللہ عنہ تم کو نماز پڑھائیں گے(یعنی عارضی امیر ہوں گے اس کے بعد)اپنے امیر کے بارے میں مشورہ کرو۔ اور میں تمہارا معاملہ ان چھ کے حوالے کر کے جا رہا ہوں۔ پس جس نے ان کی مشاورت کے بعد مقرر کردہ امیر کی مخالفت کی تو اس کی گردن اڑا دینا۔ ‘‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں رسم قرآن کے بارے اجتماعی اجتہاد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں آذربائیجان اور آرمینیہ کے محاذوں پر لشکر اسلام کے سپاہیوں میں قرآن کی قراء ات کے بارے اختلاف ہوا اور عوام الناس نے ایک دوسرے کی قراء ت کی نفی کرنی شروع کر دی۔ اس سے ایک فتنہ پھیلنے کے اندیشے بڑھ گئے۔ پس حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ‘جو لشکر کے کمانڈر تھے‘نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کواس صورت حال سے آگاہ فرمایااور لوگوں کو اس قراء ت پر جمع کرنے کا مشورہ دیا‘ جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پڑھی جاتی رہی تھی۔ پس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جمع کیے گئے قرآن
[1] سننن الدارمی‘ کتاب المقدمۃ‘ باب ماکان علیہ الناس قبل مبعث النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (۱۶۷)‘ ۱؍۷۱)۔ [2] أیضاً [3] الطبقات الکبری‘ طبقات البدرین من المھاجرین‘ من بنی عبد الشمس بن عبد مناف بن قصی‘ باب ذکر الشوری وما کان من أمرھم ۳؍۶۱۔