کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 245
إلی عمر بن الخطاب یعرضون علیہ أن یدخلوا بتجارتھم أرض العرب ولھم العشور منھا فشاور عمر فی ذلک أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأجمعوا علی ذلک فھو أول من أخذ منھم العشور۔ ‘‘[1]
’’ہمیں عبد الرزاق نے ابن جریج سے خبر دی ہے کہ انہوں نے کہا: عمرو بن شعیب نے کہا:اہل’منبج‘ اور ’بحر عدن‘ کی دوسری طرف کے رہنے والوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھا اور وہ یہ چاہتے تھے کہ وہ اپنی تجارت کے ذریعے اہل عرب پر داخل ہوں اور اس کے لیے وہ ٹیکس بھی ادا کریں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو ان سب نے اس بات پر اتفاق کیا۔ پس یہ پہلا ٹیکس تھا جو ان سے لیا گیا تھا۔ ‘‘
مضطر زانی پر حد زنا جاری کرنے میں اجتماعی اجتہاد
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک اکیلی عورت کو دوران سفر پیاس کی شدت نے آ لیا۔ اتفاقاً اسے رستے میں ایک چرواہا ملا‘ جس نے اس شرط پر اسے پانی پلانے کی حامی بھری کہ وہ اس کے بدلے میں اس سے اپنی خواہش پوری کرے گا۔ اس عورت نے جان بچانے کی خاطر اس چرواہے کی یہ شرط مان لی۔ یہ معاملہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے اس عورت پر حد جاری کرنے کے حوالے سے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں :
’’ أخبرنا أبو القاسم زید بن جعفر بن محمد العلوی بالکوفۃ وأبوبکر أحمد بن الحسن القاضی بنیسابور قالا أنبأ أبو جعفر محمد بن علی بن دحیم ثنا إبراھیم بن عبد اللّٰہ العبسی أنبأ وکیع عن الأعمش عن أبی عبد الرحمن السلمی قال أتی عمر ابن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ بامرأۃ جھدھا العطش فمرت علی راع فاستقت فأبی أن یسقیھا إلا أن تمکنہ من نفسھا ففعلت فشاور الناس فی رجمھا فقال علی ھذہ مضطرۃ أری أن تخلی سبیلھا ففعل۔ ‘‘[2]
’’ہمیں أبو القاسم زید بن جعفر بن محمدعلوی نے کوفہ میں اور قاضی أبو بکر أحمد بن حسن نے نیشاپور میں خبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں أبو جعفر محمد بن علی بن دحیم نے خبر دی ہے‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں ابراہیم بن عبد اللہ عبسی نے خبر دی ہے‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں وکیع نے أعمش سے ‘ انہوں نے أبو عبد الرحمن سلمی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: ایک خاتون حضرت عمرؓ کے پاس لائی گئی کہ جس کو سخت پیاس نے آ لیا تھا اور اس کا گزر ایک چرواہے پر ہوا‘ جس سے اس نے پانی مانگا۔ لیکن اس چرواہے نے اس خاتون کو اس شرط پر پانی دینے کی حامی بھری کہ و ہ عورت اپنی جان پر اس کو قدرت دے‘ پس اس عورت نے ایسا ہی کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو رجم کرنے کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میری رائے تو یہ ہے کہ یہ مضطر ہے لہٰذا آپ اسے چھوڑ دیں۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا۔ ‘‘
عدالتی فیصلوں میں اجتماعی اجتہاد سے رہنمائی
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے کے معروف قاضی حضرت شریح رحمہ اللہ کو ایک خط لکھا جس میں انہیں ‘ قرآن وسنت میں کوئی مسئلہ نہ ملنے کی صورت میں ‘ اجتماعی و اجماعی آراء کوسامنے رکھتے ہوئے فیصلہ جاری کرنے کا حکم دیا۔ ایک روایت کے الفاظ ہے:
’’ أخبرنا محمد بن عیینۃ عن علی بن مسھر عن أبی اسحاق عن الشعبی عن شریح: أن عمر ابن الخطاب کتب إلیہ: إن جا ء ک شیء فی کتاب اللّٰہ فاقض بہ ولا تلتفتک عنہ الرجال‘ فإن جاء ک ما لیس فی کتاب اللّٰہ فانظر سنۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاقض بھا فإن جاء ک ما لیس فی کتاب اللّٰہ ولم یکن فیہ
[1] مصنف عبد الرزاق‘ کتاب أھل الکتابین‘ باب ما یؤخذ من أرضیھم وتجاراتھم (۱۹۲۸۰)‘ ۱۰؍ ۳۳۴۔
[2] السنن الکبری للبیھقی‘ کتاب القسامۃ‘ کتاب الحدود‘ باب من زنی بإمرأۃ مستکرہۃ (۱۶۸۲۷)‘ ۸؍ ۲۳۶۔