کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 244
کہا: شرابی جب نشے میں ہوتا ہے تو أول فول بکتا ہے اور جب اول فول بکتا ہے تو کسی پر تہمت بھی لگاتا ہے۔ پس آپ اس کے لیے قذف کی حد جاری فرما دیں۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے قذف کی حد جاری فرما دی۔ ‘‘ حد قذف کے إجراء میں اجتماعی مشاورت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں دو افراد کا آپس میں جھگڑاہوا تو ان میں سے ایک نے اپنے والدین کے بارے میں یہ الفاظ کہے کہ وہ زانی نہیں تھے۔ یہ معاملہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پیش ہوا تو انہوں نے اس شخص پر حد قذف جاری کرنے کے حوالے سے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں : ’’ نا جعفر بن أحمد نا موسی بن اسحاق نا أبوبکر نا عبد اللّٰہ بن إدریس عن یحی بن سعید عن أبی الرجال عن أمہ عمرۃ قالت: استب رجلان فقال أحدھما ما أمی بزانیۃ ولا أبی بزان فشاور عمر فقالوا مدح أباہ وأمہ فقال لقد کان لھما من المدح غیر ھذا فضربہ۔ ‘‘[1] ’’ہمیں جعفر بن أحمد نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں موسی بن اسحق نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ أبوبکر نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں عبد اللہ بن إدریس نے یحی بن سعید سے خبر دی‘ انہوں نے أبو رجال سے‘ انہوں نے اپنی والدہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: دو افراد نے آپس میں گالم گلوچ کی‘ ان میں سے ایک شخص نے کہا: میری ماں زانیہ یا میرا باپ زانی نہیں تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا: اس نے اپنے باپ اور ماں کی تعریف کی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے پاس ان کی مدح کے لیے اس کے علاوہ بھی الفاظ تھے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو [تعزیراً]کوڑے لگائے۔ ‘‘ أم الولد کے آزاد ہونے کے بارے اجتماعی مشاورت اگر کسی شخص کی لونڈی سے اس کا کوئی بچہ پیدا ہو جائے تو اس لونڈی کو أم الولد کہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ ایسے شخص کی وفات کے بعد وہ لونڈی آزاد تصور کی جائے گی یا وہ بھی مال وراثت کی طرح تقسیم ہو گی۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں : ’’ أخبرنا سعید حدثنا أبو عوانۃ عن مغیرۃ عن الشعبی عن عبیدۃ قال خطب علی الناس فقال شاورنی عمر عن أمھات الأولاد فرأیت أنا وعمر أن أعتقھن فقضی بھا عمر حیاتہ وعثمان حیاتہ فلما ولیت رأیت أن أرقھن قال عبیدۃ: فرأی عمر وعلی فی الجماعۃ أحب إلینا من رأی واحد۔ ‘‘[2] ’’ہمیں سعید نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ہمیں أبو عوانہ نے مغیرۃ سے‘ انہوں نے شعبی سے‘ انہوں نے عبیدۃ سے خبر دی کہ انہوں نے کہا: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور کہا: مجھ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے أم الولد لونڈی کے بارے میں سوال کیا تو اس وقت میری اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے اس مسئلے میں یہ تھی کہ(مالک کی وفات)ان کو آزاد کر دے گی۔ پس اسی کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں فیصلہ کیا۔ پس میں جب خلیفہ بنا تو میری رائے یہ ہو گئی کہ(مالک کی وفات)ان کوغلام بنا دے گی۔ حضرت عبیدۃ نے کہا: حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اجتماعی رائے ہمارے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی انفرادی رائے سے محبوب ہے۔ ‘‘ غیر أقوام کے تجار سے ٹیکس وصول کرنے میں باہمی مشاورت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض علاقوں کے تجار نے ٹیکس کی ادائیگی کے عوض اسلامی ریاست میں اپنا سامان تجارت لانے کی اجازت مانگی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں : ’’ أخبرنا عبد الرزاق عن بن جریج قال: قال عمرو بن شعیب وکتب أھل منبج ومن وراء بحر عدن
[1] سنن الدارقطنی‘ کتاب الحدود والدیات وغیرہ (۳۷۶)‘ ۳؍ ۲۰۹۔ [2] سنن سعید بن منصور‘ کتاب الطلاق‘ باب ما جاء فی الإیلا‘ باب ما جاء فی أمھات الأولاد (۲۰۴۷)‘ ۲؍۶۰۔